معارف مثنوی اردو شرح مثنوی مولانا روم |
س کتاب ک |
|
عقلائے زمانہ نے اپنے اوہام اور افکارِباطلہ کا نام تحقیق رکھاہواہے اور وحیِ الٰہی کے آفتاب سے استفادہ کرنے میں اپنی توہین سمجھ کرمثل خفاش(چمگادڑ) روکشی از آفتاب کرتے ہیں اور خیالاتِ فاسدہ کی تاریکیوں میں اُلٹے لٹکنے کو کمالِ انسانیت سمجھتے ہیں ۔ مولاناایسے ہی حمقائے زمانہ کو نصیحت فرماتے ہیں: صاحبِ تاویلِ باطل چوں مگس وہمِ او بولِ خر و تصویرِ خس فائدہ : جولوگ تاویلِ باطل میں مبتلاہوکر نورِ وحیِ الٰہی سے روگردانی کررہے ہیں تو ان کی مثال اسی مکھی کی سی ہے ، ایساشخص اپنے وہم وخیالِ فاسد کو اپنی نجات و کامرانی کا سبب قرار دیتاہے اور وحیِ الٰہی کو بھی اپنی رائے کے تابع کرنا چاہتاہے اور ہرجگہ میں یہ کہتاہوں۔ میں سمجھتاہوں۔ میری رائے میں یہ ہے، بکتارہتاہے اور تواتر اور اجماعِ امت حتّٰی کہ حضراتِ صحابہ رضی اللہ عنہم کے معتقدات اور فیصلوں پر بھی اپنے فیصلے دیتاہے۔ پس اس کی مثال بالکل وہی ہے جو اس قصے میں مذکورہے کہ ان کے اوہام وفاسد خیالات کی مثال گدھے کا پیشاب اور گھاس کے تنکے کی تصویر ہے جس پر خیالات کی کشتی رانی کا اس کو فخر ہے۔ آگے مولانا ایسے شخص کی اصلاح کا طریقہ بیان فرماتے ہیں ؎ گر مگس تاویل بگذار د ز رائے آں مگس را بخت گرد اندہمائے اگر مکھی تاویل کو اپنی رائے میں دخل نہ دے اور تاویل پرستی سے توبہ کرلے تو تقدیر اس مگس(مکھی) کو ہما بنادے۔ یعنی یہ بابرکت شخصیت بن جاوے اور پائخانے پر بیٹھنے اور غلاظت پسندی کی خوسے نجات پاکر صفِ ابرار وپاکاں میں داخل ہوجائے۔ راقم الحروف عرض کرتاہے کہ مولاناکا اشارہ ان آیات کی طرف ہے : 1) اِنَّ الظَّنَّ لَا یُغۡنِیۡ مِنَ الۡحَقِّ شَیۡئًا ؎ ------------------------------