معارف مثنوی اردو شرح مثنوی مولانا روم |
س کتاب ک |
|
کہا کہ نہیں آپ لوگ غلط کہتے ہیں یہ تو مثل ستون ہے۔ جس شخص کا ہاتھ اس کی سونڈ پر پڑا اس نے کہا :یہ میری تحقیق میں مثل ناودان ہے۔ حاصلِ قصہ یہ کہ جملہ اہلِ عقل اختلافِ کثیر میں مبتلاہوگئے۔ حضرت رومی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں اگران ہاتھوں میں کوئی شمع ہوتی تو اس روشنی میں یہ سب اختلاف سے محفوظ رہتے۔ در کفِ ہر کس اگر شمعے بُدے اختلاف از گفتِ شاں بیروں شدے ترجمہ : اگرہرشخص کے ہاتھ پر کوئی روشنی ہوتی تو اختلاف سے یہ سب نجات پاجاتے۔ فائدہ: راقم الحروف عرض کرتاہے کہ آج تمام کائنات میں حق تعالیٰ کی ذاتِ پاک ، رسالت اور مقصدِ حیاتِ انسانی اور حشر ونشر میں اختلاف ہے، اس تاریک دنیا میں جو لوگ وحی الٰہی کے نور سے مستغنی ہوکر دنیا اور آخرت کے سنگین اور رنگین رابطوں کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں اور خالق اور مخلوق کے تعلقات کے حقوق اور حدود کی تعیین صرف اپنی عقل سے کرنا چاہتے ہیں یا غیر صاحبِ وحی کی عقل سے استمداد کرتے ہیں تو ان سب کی مثال اسی طرح ہے جیسا کہ قصۂ مذکورہ میں ہے کہ حقیقت تک رسائی کسی کو نہ ہوسکی۔ ایک نابینا خواہ خود راستہ طے کرے یاکسی دوسرے نابینا کی لاٹھی پکڑ کرچلے تو دونوں صورتوں میں ہلاکت اور منزل سے محرومی ہوگی۔ یہ راہرو اور راہ بر بوجہ نابینا ہونے کے اگرچہ کتنی ہی اکثریت میں ہوں لیکن ان کا مجموعہ نابینا ہی ہوگا۔ بینا نہ ہوگا۔ پس حقائقِ اشیاء کی صحیح تحقیق کے لیے محض عقل کافی نہیں روشنی بھی درکار ہے۔ کیوں کہ قصۂ مذکورہ میں سب عقلاء ہی تھے صرف روشنی نہ تھی۔ پس مسلمانوں کو چاہیے کہ اہلِ سائنس اور اہلِ فلاسفہ کی تقلید تحقیق امورِ آخرت اور مقصدِ حیاتِ انسانیت کی تعیین میں ہرگز نہ کریں کہ ان کے پاس روشنی نہیں ورنہ اپنی طرح تمھیں بھی صرف پائخانہ بنانے کی مشین بنادیں گے یعنی تمھیں بھی یہی سبق دیں گے کہ مقصدِ زندگی صرف کھاؤ پیو اور ہگو کے سوا کچھ نہیں۔