معارف مثنوی اردو شرح مثنوی مولانا روم |
س کتاب ک |
|
طوطے کے اس فعل سے دوکاندار کوسخت پریشانی ہوئی اوربہت ندامت ہوئی کہ اب میں کیاکروں کیوں کہ دوکاندار کو اس کی باتوں سے بڑ الطف ملتاتھا۔ کئی روز تک اس طوطے کی خوشامد کی۔ طرح طرح کے پھل دیے کہ خوش ہوجاوے لیکن طوطا بالکل خاموش تھا۔ اس دوکان پر جو خریدار آتے وہ بھی اس کے خاموش رہنے سے تعجب اور افسوس کرتے۔ ایک دن اس دوکان کے سامنے سے ایک کمبل پوش فقیرسرمنڈائے ہوئے گزرے تو یہ طوطا فورًا بلندآواز سے بولاکہ اے گنجے! توکس سبب سے گنجا ہوا تو نے بھی بوتل سے تیل گرادیا ہوگا۔ طوطے کے اس قیاس سے لوگوں کو ہنسی آگئی کہ اس نے کمبل پوش فقیر کو بھی اپنے اوپر قیاس کیا۔ اب مولانا اس واقعہ سے رجوع کرتے ہوئے نصیحت فرماتے ہیں کہ۔ کارِ پاکاں را قیاسِ خود مگیر گرچہ باشد در نوشتن شیرو شیر اے عزیز! پاک لوگوں کے معاملے کواپنے اوپر قیاس نہ کرواگرچہ لکھنے میں شیر (یعنی دودھ) اور شیر(جانور) ایک طرح کا ہوتاہے ؎ شیر آں باشد کہ مردم می خورد شیر آں باشد کہ مردم می خورد لیکن شیر(دودھ) کوآدمی کھاتاہے اور شیر(جانور) آدمی کو کھاتاہے ؎ جملہ عالم زیں سبب گمراہ شد کم کسے ز ابدال ِحق آگاہ شد تمام جہان اس غلط قیاس کے سبب گمراہ ہوگیا اور شاذ ونادرہی لوگ اولیاء اللہ اور ابدالِ حق سے آگاہ ہوئے ؎