معارف مثنوی اردو شرح مثنوی مولانا روم |
س کتاب ک |
ور خدا خواہد کہ پوشد عیبِ کس کم زند در عیبِ معیوباں نفس ترجمہ : اور جب حق تعالیٰ کسی بندے کی عیب پوشی کرنا چاہتے ہیں تو اس کو توفیق دیتے ہیں کہ وہ معیوب لوگوں کے عیب پر بھی کلام نہیں کرتا۔ چوں خدا خواہد کہ ماں یاری کند میلِ مارا جانبِ زاری کند ترجمہ : جب اللہ تعالیٰ ہم پر احسان کرنا چاہتے ہیں تو ہمارے میلان کو آہ وزاری کی طرف کردیتے ہیں۔ اے خنک چشمیکہ آں گریانِ اوست وے ہمایوں دل کہ آں بریانِ اوست ترجمہ : وہ آنکھ ٹھنڈی ہو جو اس محبوبِ حقیقی کے لیے روتی ہو اور اے مخاطب! وہ دل مبارک ہے جو اس کی سوزشِ عشق سے بریاں ہو۔ از پئے ہر گریہ آخر خندہ ایست مرد آخر بیں مبارک بندہ ایست ترجمہ : ہرگریہ و بکا کا انجام(بشرطیکہ اللہ کی محبت اور اس کے خوف سے ہو) خندہ کرتاہے۔ یعنی خوشی ومسرت پیدا کرتاہے اور انجام ومآل کا خیال رکھنے والاہی مبارک بندہ ہے۔ ہر کجا آبِ رواں سبزہ بود ہر کجا اشکِ رواں رحمت شود ترجمہ : جہاں آبِ رواں ہو وہاں سبزہ اگ پڑتاہے اسی طرح جہاں آنسو بہتے ہیں وہاں اللہ کی رحمت کا باغ لہلہانے لگتاہے، مراد اس سے دل کی سیرابی ہے۔ حدیث شریف میں آیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کو دو قطرے بہت محبوب ہیں: ایک وہ قطرہ آنسوکا جو اللہ کے خوف سے بہے اور ایک وہ قطرہ خون کا جو اللہ کی راہ میں بہایاجائے۔