حیاۃ الصحابہ اردو جلد 3 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
{لاَ یُکَلِّفُ اللّٰہُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَھَاط لَھَا مَا کَسَبَتْ وَعَلَیْھَا مَا اکْتَسَبَتْط رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذْنَا اِنْ نَّسِیْنَا اَوْ اَخْطَاْنَا} سے لے کر آخر تک۔2 اللہ تعالیٰ کسی شخص کو مکلف نہیں بناتا مگر اسی کا جو اس کی طاقت (اور اختیار)میں ہو۔ اس کو ثواب بھی اسی کا ملے گا جوارادہ سے کرے اور اس پر عذاب بھی اسی کا ہوگا جو ارادہ سے کرے۔ اے ہمارے ربّ! ہم پر داروگیر نہ فرمایئے اگر ہم بھول جائیں یا چوک جائیں۔1 حضرت مجاہد کہتے ہیں: میں نے حضرت ابنِ عباسؓ کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کیا کہ اے ابوعباس! میں حضرت ابنِ عمرؓ کے پاس تھا انھوں نے یہ آیت پڑھی اور پڑھ کر رونے لگے۔ حضرت ابنِ عباسؓ نے پوچھا: کون سی آیت؟ میں نے کہا: {وَاِنْ تُبْدُوْا مَا فِیْ اَنْفُسِکُمْ اَو تُخْفُوْہُ} حضرت ابنِ عباسؓ نے فرمایا: جب یہ آیت نازل ہوئی تھی تو اس سے حضورﷺ کے صحابہ بڑے غمگین اور بہت زیادہ پریشان ہوئے تھے۔ انھوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! ہم تو ہلاک ہوگئے، پہلے تو ہم زبان سے جو بولتے تھے اور جو عمل کرتے تھے اسی پر ہمارا مؤاخذہ ہوتا تھا، اور اب اس آیت میں یہ آگیا ہے کہ دل میں جو خیال آئے گا اس پر بھی ہمارا مؤاخذہ ہوگا اور ہمارے دل ہمارے ہاتھ میں نہیں ہیں (اب جو اچھا یا برا خیال ازخود ہمارے دل میں آئے گا اس پر بھی ہمارا مؤاخذہ ہوگا تو ہم ہلاک ہوجائیں گے)۔ اس پر حضورﷺ نے ان سے فرمایا: تم تو یوں کہو: سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا۔ چناںچہ صحابہ ؓ نے سَمِعْنَا وَاَطَعْنَا کہنا شروع کردیا۔ پھر{اٰمَنَ الرَّسُوْلُ بِمَا اُنْزِلَ اِلَیْہِ مِنْ رَّبِّہٖ وَالْمُؤْمِنُوْنََط کُلٌّ اٰمَنَ}سے لے کر{ لَا یُکَلِّفُ اللّٰہُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَھَاج لَھَا مَا کَسَبَتْ وَعَلَیْھَا مَا اکْتَسَبَتْ} تک آیات نازل ہوئیں ،جن سے پہلا حکم منسوخ ہوگیا اور دل میں جو برے خیالات آتے ہیں ان کو معاف کردیا گیا اور صرف اعمال پر مؤاخذہ رہ گیا۔2 دوسری روایت میں یہ ہے کہ حضورﷺ نے فرمایا: تم یوں کہو: سَمِعْنَا وَسَلَّمْنَا یعنی ہم نے سنا، مان لیا اور تسلیم کیا۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں میں ایمان ڈال دیا۔3 حضرت عبد اللہ ؓ فرماتے ہیں کہ جب {وَلَمْ یَلْبِسُوْآ اِیْمَانَھُمْ بِظُلْمٍ}4 نازل ہوئی۔ (جولوگ ایمان رکھتے ہیں) اور اپنے ایمان کو ظلم کے ساتھ مخلوط نہیں کرتے (ایسوں ہی کے لیے امن ہے اور وہی راہ پر چل رہے ہیں)۔ تویہ آیت حضورﷺ کے صحابہؓ پر بہت گراں گزری اور وہ اس سے بہت پریشان ہوئے اور انھوں نے (حضورﷺ کی خدمت میں) عرض کیا: ہم میں سے کون ایسا ہے جس نے ظلم نہ کیا ہو؟ (چھوٹے موٹے گناہ تو ہو ہی جاتے ہیں) حضور ﷺ نے فرمایا: تم جو سمجھے ہو یہاں ظلم سے مراد وہ نہیں ہے (بلکہ یہاں ظلم سے مراد شرک ہے)جیسے حضرت لقمان نے اپنے بیٹے سے کہا تھا: {یٰـبُنَیَّ لَا تُشْرِکْ بِاللّٰہِ اِنَّ الشِّرْکَ لَظُلْمٌ عَظِیْمٌ آیت کا نشان}1 بیٹا! اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرانا، بے شک شرک کرنا بڑا بھاری ظلم ہے۔2 حضرت عبداللہؓفرماتے ہیں کہ جب {اَلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَلَمْ یَلْبَسِوْا اِیْمَانَھُمْ بِظُلْمٍ} آیت نازل ہوئی تو حضورﷺ نے فرمایا: مجھے (اللہ کی طرف سے) کہا گیا کہ آپ بھی ان میں سے ہیں۔3