حیاۃ الصحابہ اردو جلد 3 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
پورے زور سے تم لوگوں سے درخواست کر تا ہوں کہ تم لوگوں میں سے کسی کے دل میں اگر ایسی کوئی بات ہو تو وہ میری جان کے نکلنے سے پہلے مجھ سے بدلہ لے لے۔ ان سب نے کہا: نہیں، آپ تو ہمارے لیے والد کی طرح تھے اور ہمیں ادب سکھا تے تھے۔
راوی کہتے ہیں کہ انھوں نے کبھی کسی خادم کو برا بھلا نہیں کہا تھا۔ پھر انھوں نے کہا: جو کچھ بھی ہوا ہو کیا تم نے مجھے معاف کردیاہے؟ سب نے کہا: جی ہاں۔ فرمایا: اے اللہ! تو گواہ ہوجا۔ پھر فرمایا: اگر ایسی کوئی بات نہیں ہے تو پھر میری وصیت یادرکھنا۔ میں پرزور تاکید کرتا ہوں کہ تم میں سے کوئی بھی میرے مرنے پر ہرگزنہ روئے، بلکہ جب میری جان نکل جائے تو تم وضو کرنا اور اچھی طرح وضو کرنا، اور پھر تم میں سے ہر آدمی مسجد میں جاکر نماز پڑھے پھر عُبادہ کے لیے یعنی میرے لیے اور اپنے لیے استغفار کرے، کیوںکہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا ہے:
{اِسْتَعِیْنُوْا بِالصَّبْرِ وَالصَّلٰوۃِ}1 صبر اور نماز سے سہارا حاصل کرو۔
پھر مجھے قبر کی طرف جلدی جلدی لے جانا۔ میرے جنازے کے پیچھے آگ لے کرنہ چلنا اور نہ میرے نیچے اَرغونی رنگ کا کپڑا ڈالنا۔2
بیتُ الما ل میں سے اپنے اوپر اور اپنے رشتہ داروں پر خرچ کرنے میں احتیاط برتنے کے باب میں یہ قصہ گزرچکا ہے کہ جب حضرت عمرؓ نے حضرت عبد الرحمن بن عوفؓ سے چار ہزار درہم ادھار مانگے تو حضرت عبد الرحمن نے حضرت عمرؓ کے قاصد سے کہا: جاکر حضرت عمر سے کہہ دو کہ ابھی وہ بیتُ المال سے چار ہزار لے لیں پھر بعد میں واپس کردیں۔ جب قاصد نے واپس آکر حضرت عمرؓکو ان کا جواب بتایا تو حضرت عمرؓکو بڑی گرانی ہوئی۔ پھر جب حضرت عمر کی حضرت عبد الرحمن سے ملاقات ہوئی تو ان سے کہا: تم نے کہا تھا کہ عمر چار ہزار بیتُ المال سے ادھار لے لے، اگر میں (بیت الما ل سے ادھار لے کر تجارتی قافلہ کے ساتھ بھیج دوں اور پھر) تجارتی قافلے کی واپسی سے پہلے مرجاؤں، تو تم لوگ کہو گے کہ امیرالمؤمنین نے چار ہزار لیے تھے اب ان کا انتقال ہوگیا ہے، اس لیے یہ ان کے چار ہزار چھوڑدو۔ (تم لوگ تو چھوڑ دوگے) اور میں ان کے بدلے قیامت کے دن پکڑاجاؤںگا۔
اور عن قریب اللہ تعالیٰ کے علم سے اور اس کے رسولﷺ کے علم سے اثر لینے کے باب میں یہ قصہ آئے گا کہ جب حضرت ابوہریرہؓ قاری، عالم، مال دار اور اللہ کے راستہ میں شہید ہونے والے کے بارے میں اللہ تعالیٰ کے (اخلاص نہ ہونے کی وجہ سے دوزخ میں جانے کے) فیصلے والی حدیث ذکر کرتے تو اتنا زیادہ روتے کہ بے ہوش ہو جاتے اور چہرے کے بل گرجاتے، یہاں تک کہ حضرت شُفَی اَصبحی انھیں سہارا دیتے اور بہت دیر تک ان کا یہی حال رہتا۔ اور حضرت معاویہؓ جب یہ حدیث سنتے تو اتنا زیادہ روتے کہ لوگ یہ سمجھتے کہ ان کی تو اب جان نکل جائے گی۔