حیاۃ الصحابہ اردو جلد 3 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
حضرت جہجاہ کے ہاتھ پر جسم کو کھاجانے والی بیماری لگادی جس سے ان کا انتقال ہوگیا۔ 3 ابنِ سَکَن کی روایت میں ہے کہ حضرت جہجاہ بن سعید غِفاری ؓ اُٹھ کر حضرت عثمان ؓ کی طرف گئے اور ان کے ہاتھ سے چھڑی لے لی اور حضرت عثمان ؓ کے گھٹنے پر اس زور سے ماری کہ وہ ٹوٹ گئی، اس پر لوگوں نے شور مچادیا۔ حضرت عثمان ؓ منبر سے اُترکر اپنے گھر تشریف لے گئے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت غِفاری ؓ کے گھٹنے میں بیماری پیداکردی اور سال گزرنے سے پہلے ہی اسی بیماری میں ان کا انتقال ہوگیا۔ حضرت عبد الملک بن عمیر کہتے ہیں: مسلمانوں میں سے ایک آدمی حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ کے پاس آیا اور اس نے یہ شعر پڑھے (حضرت سعد ؓ بیماری کی وجہ سے اس لڑائی میں شریک نہیں ہوسکے تھے جس پر اس نے یہ اشعار طنزاً پڑھے): نُقَاتِلُ حَتَّی یُنْزِلَ اللّٰہُ نَصْرُہٗ وَسَعْدٌ بِبَابِ الْقَادِسِیَّۃِ مُعْصِمُ فَأُبْنَا وَقَدْ اٰمَتْ نِسَائٌ کَثِیْرَۃٌ وَنِسْوَۃُ سَـعْدٍ لَـیْسَ فِـیْھِنَّ أَیِّـمُ ہم تو اس لیے جنگ کررہے تھے تاکہ اللہ تعالیٰ اپنی مدد نازل کردے ا ور (حضرت) سعد قادسیہ کے دروازے سے چمٹے کھڑے رہے۔ جب ہم واپس آئے تو بہت سی عورتیں بیوہ ہوچکی تھیں، لیکن (حضرت) سعد کی بیویوں میں سے کوئی بھی بیوہ نہیں ہوئی۔ جب حضرت سعد ؓ کو ان شعروں کا پتا چلا تو انھوں نے ہاتھ اٹھاکر یہ دعا مانگی: اے اللہ! اس کی زبان اور ہاتھ کو مجھ سے تو جس طرح چاہے روک دے۔ چناںچہ جنگ قادسیہ کے دن اسے ایک تیر لگا جس سے اس کی زبان بھی کٹ گئی اور ہاتھ بھی کٹ گیا اور وہ قتل بھی ہوگیا۔ 1 حضرت قبیصہ بن جابرکہتے ہیں: ہمارے ایک چچا زاد بھائی نے جنگِ قادسیہ کے موقع پر (حضرت سعد ؓ پر طنز کرنے کے لیے) یہ دوشعر کہے جوگزر گئے، البتہ پہلے شعر میں الفاظ دوسرے ہیں جن کا ترجمہ یہ ہے کہ کیا تم نے نہیں دیکھا کہ اللہ نے اپنی مدد کو کیسے اتارا؟ جب حضرت سعد ؓ کو ان اشعار کا پتا چلا تو انھوں نے فرمایا: خداکرے اس کی زبان اور ہاتھ بے کار ہوجائیں۔ چناںچہ ایک تیر اس کے منہ پر لگا جس سے وہ گونگا ہوگیا پھر جنگ میں اس کا ہاتھ بھی کٹ گیا۔ اپنا عذر لوگوں کو بتانے کے لیے حضرت سعد نے فرمایا: مجھے اٹھاکر دروازے کے پاس لے چلو۔ چناںچہ لوگ انھیں اٹھاکر باہر لائے پھر انھوں نے اپنی پشت سے کپڑا ہٹایا تو اس پر بہت سے زخم تھے جنھیں دیکھ کر تمام لوگوں کو پورایقین ہوگیا کہ یہ واقعی معذور تھے اور کوئی بھی انھیں بزدل نہیں سمجھتاتھا۔ 2 اپنے بڑوں کی وجہ سے ناراض ہونے کے باب میں (طبرانی والی) حضرت عامر بن سعد کی روایت میں حضرت سعد ؓ کا حضرت علی حضرت طلحہ اور حضرت زبیر ؓ کو برا بھلا کہنے والے کو بددعا دینا بھی گزرچکا ہے جس میں یہ بھی ہے کہ ایک بختی اونٹنی تیزی سے آئی