حیاۃ الصحابہ اردو جلد 3 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
ان کی عیادت کرنے آئے تو دیکھا کہ وہ رو رہے ہیں۔ ساتھیوں نے ان سے پوچھا: آپ کیوں رو رہے ہیں؟ کیا آپ سے نبی کر یمﷺ نے یہ نہیں فرمایا تھا کہ اپنی مونچھوں کو کترواؤ اور پھر اسی پر جمے رہو یہا ں تک کہ تم مجھ سے (قیامت کے دن) آملو؟ اس میں آپ کے ایمان پر خاتمہ کی اور قیامت کے دن حضورﷺ سے ملاقات کی بشارت ہے)۔ انھوں نے کہا: ہاں، حضورﷺ نے یہ فرمایاتھا، لیکن میں نے حضورﷺکو یہ بھی فرماتے ہوئے سنا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے (انسانوں کی) ایک مٹھی دائیں ہا تھ میں لی اور دوسری مٹھی دوسرے ہاتھ میں لی اور فر مایا کہ اس (داہنی) مٹھی والے اس (جنت) کے لیے ہیں اور اس (دوسری مٹھی) والے اس (جہنم) کے لیے ہیں اور مجھے کوئی پروا نہیں (کہ کون کس مٹھی میں ہے اور وہ کہاں جائے گا)۔ تو مجھے معلوم نہیں کہ میں کون سی مٹھی میں ہوں (اللہ کی ذات تو بہت بے نیاز ہے اس پر کسی کا زور نہیں چلتا)۔1 حضرت معاذ بن جبل ؓ کی وفات کا وقت جب قریب آیا تو وہ رونے لگے، تو ان سے کسی نے پوچھا: آپ کیوں رو رہے ہیں؟ حضرت معاذ ؓ نے فرمایا: اللہ کی قسم! نہ تو میں موت سے گھبرا کر رو رہا ہوں اور نہ ہی دنیاکو پیچھے چھوڑکر جانے کے غم میں رورہا ہو ں، بلکہ اس وجہ سے رورہا ہوں کہ میں نے حضورﷺکو فرما تے ہوئے سنا ہے کہ (انسانوں کی) دومٹھیاں ہیں۔ ایک مٹھی جہنم کی آگ میں جائے گی اوردوسری جنت میں، اور مجھے معلوم نہیں میں ان دونوں مٹھیوں میں سے کس میں ہوں۔2 حضرت عبد اللہ بن عباسؓ سے کسی آدمی نے کہا کہ ایک آدمی ہمارے پاس آیا ہے جو تقدیر کو جھٹلا تا ہے۔ حضرت ابنِ عباس اس وقت نابینا ہوچکے تھے، انھوں نے فرمایا: مجھے اس کے پاس لے جاؤ۔ لوگوں نے کہا: اے ابنِ عباس! آپ اس کے ساتھ کیا کریں گے؟ انھوں نے فرمایا: اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے! اگروہ میرے قابو آگیا تو میں اس کی ناک دانتوں سے ایسے کاٹوں گا کہ وہ کٹ کر الگ ہوجائے، اور اگر اس کی گردن میرے قابو میں آگئی تومیں اسے کچل دوںگا، کیوںکہ میں نے حضورﷺ کو یہ فرما تے ہوئے سنا ہے کہ گویا کہ میںبنو فِہر کی مشرک عورتوں کو خزرج کا طواف کر تے ہوئے اور ان کے سُرین ہلتے ہوئے دیکھ رہاہوں، اور یہ (تقدیر کو جھٹلا نا) اس امت کا پہلا شرک ہے۔ اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے! پہلے تو یہ کہیں گے کہ شراللہ کے مقدر کرنے سے نہیں ہے۔ پھر ان کا یہ بر ا اور غلط خیال انھیں اس پر لے آئے گاکہ خیر بھی اللہ کے مقدر کرنے سے نہیں ہے۔1 حضرت عطاء بن ابی رباح کہتے ہیں کہ میں حضرت ابنِ عباسؓ کی خدمت میں آیا۔ وہ زمزم (کے کنویں) سے پانی نکال رہے تھے جس سے ان کے کپڑوں کا نچلا حصہ گیلا ہوچکا تھا۔ میں نے ان سے کہا: کچھ لوگوں نے تقدیر پر اعتراض کیا ہے۔ انھوں نے فرمایا: اچھا، کیا لوگوں نے ایسا کر لیا ہے؟ میں نے کہا: جی ہاں۔ انھوں نے فرمایا: تقدیر پر اعتراض کر نے والوں کے بارے میں ہی یہ آیات نازل ہوئی ہیں: