حیاۃ الصحابہ اردو جلد 3 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
تو یہ اور یہ کہہ رہے ہیں (حضرت عمر ؓ حضور ﷺ کے فرمان کا مطلب نہ سمجھ سکے، لیکن لوگ سمجھ گئے)۔ لوگوں نے کہا: حضرت بلال ٹھیک کہہ رہے ہیں، آپ اللہ سے بھی مدد مانگیں اور (مصر،شام، عراق کے) مسلمانوں سے بھی مدد مانگیں۔ چناںچہ مسلمانوں سے غلہ منگوانے کی طرف حضرت عمر ؓ کی توجہ نہ تھی اب ہوگئی اور انھیں اس سلسلہ میں خط بھیجے۔ بہرحال لوگوں کی بات سن کر حضرت عمر نے خوش ہوکر فرمایا: اللّٰہُ أَکْبَرُ! قحط کی آزمایش اپنے خاتمہ پر پہنچ گئی۔ حضرت عمرپر یہ حقیقت کھلی کہ جس قوم کو اللہ سے مانگنے کی توفیق مل جاتی ہے اس کی آزمایش ختم ہوجاتی ہے۔ چناںچہ حضرت عمرنے تمام شہروں کے گورنروں کو یہ خط لکھا کہ مدینہ اور اس کے آس پاس کے لوگ سخت قحط کی مصیبت میں ہیں، لہٰذا ان کی مدد کرو۔ اور لوگوں کو نمازِ اِستسقا کے لیے شہر سے باہر لے گئے اور حضرت عباس ؓ کو بھی ساتھ لے گئے اور پیدل تشریف لے گئے۔ پہلے مختصر بیان کیا، پھر نماز پڑھائی، پھر گھٹنوں کے بل بیٹھ کر یہ دعا مانگی: اے اللہ! ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ سے ہی مدد مانگتے ہیں۔ اے اللہ! ہماری مغفرت فرما اور ہم پر رحم فرما اور ہم سے راضی ہوجا۔ پھر وہاں سے واپس آئے تو زور دار بارش شروع ہوگئی، اور راستے کے تمام گڑھے اور چھوٹے تالاب بارش کے پانی سے بھر گئے، اور ان سب میں سے گزر کر یہ لوگ اپنے گھروں کو پہنچ سکے۔ 1 ’’تاریخ طبری‘‘ میں ہی حضرت عاصم بن عمر بن خطاب سے بھی یہ قصہ منقول ہے۔ اس میں یہ بھی ہے قبیلہ مُزَینہ کا ایک گھرانہ دیہات میں رہتا تھا۔ انھوں نے اپنے گھروالے سے کہا: فاقہ کی اِنتہا ہوگئی ہے ہمارے لیے ایک بکری ذبح کردو۔ اس نے کہا: ان بکریوں میں کچھ نہیں ہے، لیکن گھروالے اصرار کرتے رہے آخر اس نے ایک بکری ذبح کی اور اس کی کھال اتاری تو صرف سرخ ہڈی تھی گوشت کا نام ونشان نہیں تھا، تو اس کی ایک دَم چیخ نکلی: ہائے محمد! (اگر وہ ہوتے تو ایسا نہ ہوتا) پھر اس نے خواب دیکھا کہ حضورﷺ اس کے پاس تشریف لائے ہیں اور فرمارہے ہیں: تمھیں بارش کی خوش خبری ہو۔ جاکر عمرسے میرا سلام کہو اور ان سے کہو: اے عمر! میں نے تو یہی دیکھا ہے کہ تم عہد کے پورا کرنے والے اور بات کے پکے تھے، اب تمھیں کیا ہوگیاہے؟ لہٰذا عقل مندی اختیار کرو۔ وہ صاحب دیہات سے چلے اور حضرت عمر کے دروازے پر پہنچے اور حضرت عمر کے غلام سے کہا: اللہ کے رسول ﷺ کے قاصد کو اندر جانے کی اجازت لے دو۔ پھر آگے پچھلی جیسی حدیث ذکر کی۔ حضرت سُلیم بن عامر خبائری کہتے ہیں: ایک دفعہ بارشیں بند ہوگئیں تو حضرت معاویہ بن ابی سفیان ؓ اور دِمَشق والے نمازِ اِستسقا کے لیے شہر سے باہر گئے۔ جب حضرت معاویہ ؓ منبر پر بیٹھ گئے تو فرمایا: حضرت یزید بن اَسود جُرشی ؓ کہاں ہیں؟ اس پر لوگوں نے انھیں زور سے پکارا تو وہ پھلانگتے ہوئے آئے اور حضرت معاویہ ؓ کے فرمانے پر ان کے قدموں کے پاس منبر پر بیٹھ گئے۔ حضرت معاویہ ؓ نے یوں دعا فرمائی: اے اللہ! آج ہم تیرے سامنے اپنے سب سے بہترین اور سب سے افضل آدمی کو سفارشی بنا کر لائے ہیں۔ اے اللہ! ہم یزید بن اَسود جُرشی کو سفارشی بناکرلائے ہیں۔ اے یزید! اپنے دونوں ہاتھ اللہ کے سامنے اٹھاؤ۔ چناںچہ حضرت یزید نے