حیاۃ الصحابہ اردو جلد 3 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
مقرر کردو۔ صحابہ ؓ نے عرض کیا: جو آپ کی رائے ہو یارسول اللہ! آپ نے فرمایا: ہر چرنے والے ریوڑ میں سے ہر سال ایک بکری (اسے دے دیا کرو)۔ صحابہ نے عرض کیا: یہ تو زیادہ ہے۔ حضور ﷺ نے اشارہ کرکے بھیڑیے سے کہا: تم چپکے سے جھپٹا مار کرلے جایاکرو۔ پھر وہ بھیڑیا چلاگیا۔ 1 حضرت مطّلب بن عبداللہ بن حَنْطب کہتے ہیں: حضورﷺ مدینے میں تھے ایک بھیڑیا آکر آپ کے سامنے کھڑاہوگیا۔ حضورﷺ نے فرمایا: یہ درندوں کی طرف سے نمایندہ بن کر آیاہے۔ اگر تم چاہو تو اس کے لیے کچھ حصہ مقرر کردو یہ اسے لے گا اور اس سے زیادہ لینے کی کوشش نہیں کرے گا، اور اگر چاہوتو اسے اس کے حال پر چھوڑ دو اور اپنے جانور اس سے بچانے کی کوشش کرو اور یہ دائو لگا کر تمہارے جتنے جانور لے گیا وہ اس کاحصہ۔ صحابہؓ نے کہا: یارسول اللہ! ہمارا دل تو نہیں چاہتا کہ ہم اسے کچھ اپنے ہاتھ سے خود دیں۔ حضورﷺ نے تین انگلیوں سے اشارہ کرکے بھیڑیے سے کہا: تم جھپٹا مار کر لے جایاکرو۔ چناںچہ وہ بھیڑیا آواز نکالتا ہوا واپس چلاگیا۔ 2 قبیلۂ جُہَینہ کے ایک صاحب کہتے ہیں: جب حضورﷺ نماز پڑھ چکے تو سو کے قریب بھیڑیے بھیڑیوں کے نمایندے بن کر آئے اور آکر بیٹھ گئے۔ حضورﷺ نے فرمایا: یہ بھیڑیوں کا وفد آپ لوگوں کے پاس آیا ہے، یہ چاہتے ہیں کہ آپ لوگ اپنے جانوروں میںسے ان کا حصہ مقررکرکے انھیں دے دیا کریں، اور باقی جانوروں کے بارے میں آپ لوگ بالکل بے فکر اور بے خوف ہوکر رہاکریں۔ صحابہ ؓ نے حضورﷺ سے فقر وفاقہ اور تنگی کی شکایت کی۔ حضور ﷺ نے فرمایا: انھیں واپس بھیج دو (اور بتادو کہ آپ لوگ ان کی تجویزپر عمل نہیں کرسکتے)۔ چناںچہ وہ بھیڑیے آوازیں نکالتے ہوئے مدینہ سے چلے گئے۔ 1 حضورﷺ کے آزاد کردہ غلام حضرت سفینہؓفرماتے ہیں: میں سمندر میں سفر کررہاتھا، جس کشتی میں میں تھا وہ ٹوٹ گئی۔ میں اس کے ایک تختہ پر بیٹھ گیا۔ اس تختہ نے مجھے ایسے گھنے جنگل میں لا پھینکا جس میں شیر تھے۔ ایک شیر مجھے کھانے کے لیے آیا، میں نے کہا: اے ابو الحارث! (یہ شیر کی کنیت ہے) میں حضورﷺ کا غلام ہوں۔ اس پر اس نے اپنا سر جھکادیا اور آگے بڑھ کر مجھے کندھامارا (اور میرے آگے آگے چل پڑا)، یہاں تک کہ مجھے جنگل سے باہر لاکر راستہ پر ڈال دیا، پھر آہستہ سے آوازنکالی جس سے میں سمجھا کہ یہ مجھے رخصت کررہاہے۔ یہ میری اس شیر سے آخری ملاقات تھی۔ 2 حضرت سفینہؓفرماتے ہیں: میں سمندر میں سفر کررہاتھا ہماری کشتی ٹوٹ گئی۔ (ہم ایک جنگل میں پہنچ گئے) ہمیں آگے راستہ نہیں مل رہا تھا۔ وہاں ایک شیر ایک دَم ہمارے سامنے آیا جسے دیکھ کر میرے ساتھی پیچھے ہٹ گئے۔ میں نے شیر کے قریب جاکر کہا: میں حضور ﷺ کا صحابی سفینہ ہوں، ہم راستے سے بھٹک گئے ہیں (ہمیں راستہ بتائو)۔ وہ میرے آگے چل پڑا اور چلتے چلتے ہمیں راستے پر لاکھڑا کیا۔ پھر اس نے مجھے ذرادھکادیا گویاکہ وہ مجھے راستہ دکھا رہاتھا، پھر ایک طرف کو ہٹ گیا۔ میں سمجھ گیا کہ یہ اب ہمیں