حیاۃ الصحابہ اردو جلد 3 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
میں گرادیا تو اس شیطان نے کہا: یہ سورۂ بقرہ کی آیت {اَللّٰہ لَااِلٰہَ اِلَّا ھُوَ الْحَیُّ الْقَیُّوْمُ} آخر تک ہے۔حضرت عبداللہ سے کسی نے پوچھا: اے ابو عبدالرحمن! وہ مسلمان کون تھا؟ حضرت عبداللہ ؓ نے فرمایا: حضرت عمرؓ کے علاوہ اور کون ہوسکتا ہے۔ 1
حضرت ابنِ مسعود ؓ نے فرمایا: نبی کریم ﷺ کے ایک صحابی کو ایک جنّ ملا۔ انھوں نے اس جنّ سے کشتی لڑی اور اسے گرادیا۔ جنّ نے ان سے کہا: دوبارہ کشتی لڑو۔ دوبارہ کشتی ہوئی تو پھر انھوں نے اس کو گرادیا۔ اس صحابی نے اس جنّ سے کہا: تم مجھے دبلے پتلے نظر آرہے ہو اور تمہارا رنگ بھی بدلا ہوا ہے اور تمہارے بازو کتے کے بازوئوں کی طرح چھوٹے چھوٹے ہیں، تو کیا تم سب جنّ ایسے ہی ہوتے ہو یا ان میں سے تم ہی ایسے ہو؟ اس جنّ نے کہا: نہیں، اللہ کی قسم! میں تو ان میں بڑے جسم والا اور طاقت ور ہوں۔ آپ مجھ سے تیسری مرتبہ کشتی کرو، اگر اس دفعہ آپ نے مجھے گرادیا تو میں آپ کو ایسی چیز سکھائوں گا جس سے آپ کو فائدہ ہوگا۔ چناںچہ تیسری مرتبہ کشتی ہوئی تو اس مسلمان نے اس کو پھر گرادیا اور اس سے کہا: لائو مجھے سکھائو۔ اس جن نے کہا: کیا آپ آیت الکرسی پڑھتے ہیں؟ اس مسلمان نے کہا: جی ہاں۔ اس جنّ نے کہا: آپ اس آیت کو جس گھر میں پڑھیں گے اس گھر سے شیطان نکل جائے گا اور نکلتے ہوئے گدھے کی طرح اس کی ہواخرج ہو رہی ہوگی اور صبح تک پھر اس گھر میں نہیں آئے گا۔ حاضرین میں سے ایک آدمی نے کہا: اے ابوعبدالرحمن! یہ نبی کریم ﷺ کے کون سے صحابی تھے؟ اس سوال پر چیں بہ جبیں ہوکر حضرت عبداللہ ؓ اس کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: یہ حضرت عمرؓ کے سوا کون ہوسکتاہے؟ 2
حضرت مجاہد نے فرمایا: ہمیں یہ بتایا جاتاتھا کہ حضرت عمر ؓ کے زمانۂ خلافت میں شیاطین زنجیروں میں بندھے ہوئے تھے۔ جب وہ شہید ہوگئے تو پھر یہ آزاد ہوکر پھیل گئے۔1
حضرت عامر بن عبداللہ بن الزبیر کہتے ہیں: حضرت عبداللہ بن زبیرؓ قریش کے سواروں کی ایک جماعت کے ساتھ عمرہ سے واپس آرہے تھے۔ جب یَنَاصِب پہاڑ کے پاس پہنچے تو انھیں ایک درخت کے پاس ایک آدمی نظر آیا۔ حضرت ابنِ زبیر اپنے ساتھیوں سے آگے بڑھ کر اس آدمی کے پاس پہنچے اور اسے سلام کیا۔ اس آدمی نے ان کی پروا نہ کی اور ہلکی آواز سے سلام کا جواب دیا۔ حضرت ابنِ زبیر سواری سے نیچے اُترے، اس پر اس آدمی نے کوئی اثر نہ لیا اور اپنی جگہ سے بالکل نہ ہلا۔ حضرت ابنِ زبیر نے کہا: سائے سے پرے ہٹ جائو، تو وہ ناگواری کے ساتھ ایک طرف ہٹ گیا۔ حضرت ابنِ زبیر فرماتے ہیں: میں وہاں بیٹھ گیا اور میں نے اس کا پاتھ پکڑ کر کہا: تو کون ہے؟ اس نے کہا: میں جنّ ہوں۔ اس کے یہ کہتے ہی (غصہ کی وجہ سے) میرے جسم کا ہر بال کھڑا ہوگیا۔ میں نے اسے زور سے کھینچ کر کہا: تم جنّ ہو کر اس طرح میرے سامنے آتے ہو۔ اب جو میں نے غور سے دیکھا تو اس کے پائوں جانوروں جیسے تھے۔میں نے جوذرا زور دکھایا تو وہ نرم پڑ گیا۔ میں نے اسے ڈانٹا اور کہا: تم ذمی ہو کر میرے سامنے آئے ہو؟ وہ وہاں سے بھاگ گیا، اتنے میں میرے ساتھی بھی آگئے۔ انھوں نے مجھ سے پوچھا کہ آپ کے پاس جو آدمی تھا وہ کہاں گیا؟ میں نے کہا: یہ جنّ تھا جو