حیاۃ الصحابہ اردو جلد 3 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
لڑائی کو اچھا نہیں سمجھیں گے، ہم انھیں خون بہادے دیں گے۔اَربد نے کہا: ٹھیک ہے میں تیار ہوں۔ چناںچہ دونوں واپس آئے اور عامر نے کہا: اے محمد! آپ ذرا میرے ساتھ کھڑے ہوں میںآپ سے بات کرنا چاہتا ہوں۔ حضورﷺ اٹھ کر اس کے ساتھ گئے۔ وہ دونوں ایک دیوار کے ساتھ بیٹھ گئے، حضورﷺ بھی ان کے ساتھ بیٹھ گئے اور عامر سے باتیں کرنے لگے۔ اَربَد نے حضورﷺ پر تلوارسوتنے کا ارادہ کیا، جب اس نے تلوار کے قبضہ پر ہاتھ رکھا تو اس کا ہاتھ خشک ہوگیا اور وہ تلوار نہ سونت سکا اس طرح اسے کافی دیر ہوگئی۔ حضورﷺ نے مڑ کر اَربَد کی طرف دیکھا تو اس کی یہ بزدلانہ حرکت نظرآئی۔ حضورﷺ دونوں کو چھوڑ کر آگئے۔ عامر اور اَربد حضورﷺ کے پاس سے چلے اور حرّہ راقم یعنی پتھریلے میدان میں پہنچے تو دونوں وہاں ٹھہر گئے۔ حضرت سعد بن معاذاور اُسید بن حضیرؓ دونوں ان کے پاس گئے اور ان سے کہا: اے اللہ کے دشمنو! اٹھو اور یہاں سے چلے جائو، اللہ تم دونوں پر لعنت کرے۔ عامرنے پوچھا: اے سعد! یہ آپ کے ساتھ کون ہے؟ حضرت سعد نے کہا: یہ اُسید بن حضیر الکاتب یعنی پڑھے لکھے آدمی ہیں۔ چناںچہ وہ دونوں وہاں سے چل پڑے۔ جب وہ مقام رقم میں پہنچے تو اللہ نے اَربدپر ایسی بجلی گرائی جس سے وہ وہیں مرگیا۔ عامر وہاں سے آگے چلا، جب وہ مقامِ خُریم پہنچا تو اللہ نے اس کے جسم میں ایک پھوڑا پیدا کردیا اور اسے قبیلۂ بنی سلول کی ایک عورت کے گھر میں رات گزار نی پڑی (یہ قبیلہ عربوں میں گھٹیا شمار ہوتاتھا)۔ وہ پھوڑا حلق میں ہواتھا۔ وہ اپنے پھوڑے کو ہاتھ لگاتا اور کہتا: یہ اتنی بڑی گلٹی ہے جتنی بڑی اونٹ کی ہوتی ہے۔ میں سَلُولِیہ عورت کے گھر میں پڑا ہوا ہوں اور میں اس کے گھر میں مرنا نہیں چاہتا (اوّل تو قبیلہ سب سے گھٹیا ہے پھر عورت کا گھر ہے، یہ دونوں باتیں ذلت کی ہیں)۔ پھر وہ اپنے گھوڑے پر سوار ہوا اور اسے اِیڑ لگائی اور یوں واپسی میں اپنے گھوڑے پر ہی مرگیا۔ اور ان دونوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے یہ آیات نازل فرمائیں: {اَللّٰہُ یَعْلَمْ مَا تَحْمِلُ کُلُّ اُنْثٰی}سے لے کر {وَمَا لَھُمْ مِّنْ دُوْنِہٖ مِنْ وَّالٍآیت کا نشان} تک۔1 اللہ تعالیٰ کو سب خبر رہتی ہے جو کچھ کسی عورت کو حمل رہتاہے اور جو کچھ رحم میں کمی وبیشی ہوتی ہے اور ہر شے اللہ کے نزدیک ایک خاص انداز سے (مقرر) ہے۔ وہ تمام پوشیدہ اور ظاہر چیزوں کو جاننے والاہے۔ سب سے بڑا (اور) عالی شان ہے۔ تم میں سے جو شخص کوئی بات چپکے سے کہے اور جو پکار کر کہے،اور جو شخص رات میں کہیں چھپ جاوے اور جو دن میں چلے پھرے یہ سب برابر ہیں۔ہر شخص (کی حفاظت) کے لیے فرشتے (مقرر) ہیں جن کی بدلی ہوتی رہتی ہے۔ کچھ اس کے آگے اور کچھ اس کے پیچھے کہ وہ بحکمِ خدا اس کی حفاظت کرتے ہیں۔ واقعی اللہ تعالیٰ کسی قوم کی (اچھی)حالت میں تغیر نہیں کرتا جب تک وہ لوگ خود اپنی (صلاحیت کی) حالت کو نہیں بدل دیتے۔ اور جب اللہ تعالیٰ کسی قوم پر مصیبت ڈالنا تجویز کر لیتا ہے تو پھر اس کے ہٹنے کی کوئی صورت ہی نہیں اور کوئی خدا کے سوا ان کا مدد گار نہیں رہتا۔ حضرت ابنِ عباس ؓ نے فرمایا: اللہ کے حکم سے باری باری آنے والے فرشتے حضرت محمد ﷺ کی حفاظت کرتے ہیں۔ پھر انھوں نے اَربَد پر بجلی گرنے کا واقعہ بیان کیا اور فرمایا: