حیاۃ الصحابہ اردو جلد 3 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
مدد کرتے تھے، کسی کافر پر حملہ نہیںکرتے تھے۔ 1 حضرت عِکرِمہ کہتے ہیں: حضورﷺ کے آزاد کردہ غلام حضرت ابو رافع ؓ نے فرمایا: میں حضرت عباس بن عبدالمطّلب ؓ کاغلام تھا اور اسلام ہمارے گھر میں داخل ہوچکا تھا۔ چناںچہ حضرت عباس، ان کی اہلیہ حضرت اُمِ فضل ؓ اور میں، ہم سب مسلمان ہوچکے تھے، لیکن حضرت عباس اپنی قوم سے ڈرتے تھے اور ان کے خلاف کرنے کو پسند نہیں کرتے تھے اور اپنے اسلام کو چھپاتے تھے اور بہت زیادہ مال دارتھے۔ ان کا بہت سا مال ان کی قوم میں بکھرا ہوا تھا۔ ابولہب بھی جنگِ بدر میں نہیں گیا تھا اور اس نے اپنی جگہ عاص بن ہشام بن مغیرہ کو بھیجا تھا۔ باقی تمام کافروں نے بھی یہی کیاتھا، جو خود اس جنگ میں نہیں گیاتھا اس نے اپنی جگہ کسی نہ کسی کو بھیجاتھا۔ جب اسے جنگِ بدر میں کفارِ قریش کے شکست کھانے کی خبر ملی تو اللہ نے اسے خوب رسوا اور ذلیل کیا، اور ہمیں اس خبر سے اپنے اندر بہت قوت اور غلبہ محسوس ہوا۔ حضرت ابو رافع ؓ کہتے ہیں:میں ایک کمزور آدمی تھا اور زمزم کے خیمے میں تیر بنایا کرتا تھا انھیں چھیلا کرتاتھا۔ اللہ کی قسم! میں خیمے میں بیٹھا ہوا تیر چھیل رہاتھا اور حضرت اُمِ فضل ؓ میرے پاس بیٹھی ہوئی تھیں اور یہ جو خبر آئی تھی اس سے ہم بہت خوش تھے کہ اتنے میں ابولہب بری طرح پائوں گھسیٹتاہوا آیا اور خیمے کی رسی پر آکر بیٹھ گیا۔ اس کی پشت میری پشت کی طرف تھی۔ وہ یوں بیٹھاہوا تھا کہ اتنے میں لوگوں نے کہا: یہ ابوسفیان ہے جو جنگِ بدرسے واپس آیا۔ اس ابوسفیان کانام مغیرہ بن حارث بن عبدالمطّلب ہے۔ (یہ ابوسفیان اور ہیں، اور جو ابوسفیان قریش کے سردار اور ہر جنگ کے سپہ سالارتھے وہ اور ہیں ان کا نام صخر بن حرب بن اُمیہ ہے) ابولہب نے ابوسفیان سے کہا: میرے پاس آئو، کیوںکہ میری زندگی کی قسم! صحیح خبر تو تمہارے پاس ہے۔ وہ ابولہب کے پاس آکر بیٹھ گیا اور لوگ بھی پاس آکر کھڑے ہوگئے۔ ابولہب نے کہا: اے میرے بھتیجے! ذرا یہ تو بتائو کہ لوگوں کو کیا ہوا؟ کیسے شکست ہوگئی؟ اس نے کہا:اللہ کی قسم! ہم لڑنے کے لیے مسلمانوں کے سامنے کھڑے ہی ہوئے تھے کہ مسلمان ہم پر چھاگئے، اور جسے چاہتے تھے قتل کردیتے تھے اور جسے چاہتے تھے قید کرلیتے تھے اور اللہ کی قسم! میں اس میں اپنے لشکر کا کوئی قصور نہیں سمجھتا، کیوںکہ ہمارا مقابلہ تو مسلمانوں سے ہوا ہی نہیں بلکہ ہمارے مقابلہ میں تو ایسے لوگ آگئے تھے جن کا رنگ سفید تھا اور وہ زمین وآسمان کے درمیان چتکبرے گھوڑوں پر سوار تھے اور وہ لوگ تو کسی چیز کو چھوڑتے نہیں تھے، ان کے سامنے کوئی چیز ٹھہر نہیں سکتی تھی۔ حضرت ابورافع کہتے ہیں:میں نے خیمہ کی رسی ہاتھ میں اٹھائی اور کہا: اللہ کی قسم! یہ تو فرشتے تھے (چوںکہ کفارِ قریش فرشتوں کو مانتے نہیں تھے اس وجہ سے) ابولہب نے ہاتھ اٹھاکر مجھے زور سے مارا، میں اس سے گتھ گیا۔ اس نے مجھے اٹھاکر زمین پر پٹخااور پھر میرے سینے پر بیٹھ کر مجھے مارنے لگا۔ میں کمزور آدمی تھا، اس پر حضرت اُمِ فضل نے کھڑے ہوکر خیمہ کا ایک کھونٹا لیا اور زور سے ابولہب کے سرپر مارا، جس سے اس کے سرمیں بڑا زخم ہوگیا