حیاۃ الصحابہ اردو جلد 3 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
روم کے محلات کا وعدہ کررہے ہیں۔2 اور عن قریب ’’تائیداتِ غیبیہ ‘‘ کے باب میں زہر کے اثر نہ ہونے کے عنوان میں یہ مضمون آئے گا کہ حضرت خالد ؓ نے زہر پیا اور فرمایا: کوئی انسان اپنے وقت سے پہلے نہیں مرسکتا۔ اور یہ بھی آئے گا کہ عمرو ؓ نے کہا: اے عربوں کی جماعت! جب تک تمہارے طبقہ (صحابہ) کا ایک فرد بھی باقی رہے گا، تم جس کام یا ملک کا ارادہ کروگے اس کے مالک بن جاؤگے۔ اوریہ بھی آئے گا کہ عمروؓ نے حِیرہ والوں سے کہا: میں نے آج جیسا واضح دلیل والا دن کبھی نہیں دیکھا۔ اور نصرتِ خداوندی کے اسباب کے باب میں آئے گا کہ حضرت ثابت بن اقرمؓ نے کہا: اے ابوہریر ہ! ایسے لگ رہا ہے کہ آپ دشمن کی بہت زیادہ فوجیں دیکھ رہے ہیں؟ (حضرت ابو ہریرہ ؓکہتے ہیں) میں نے کہا:جی ہاں۔ حضرت ثابت نے کہا: آپ ہمارے ساتھ جنگِ بدر میں شریک نہیں ہوئے تھے؟(اللہ کی طرف سے) ہماری مدد تعداد کی کثرت کی وجہ سے نہیں ہوتی (وہ تو ایمان واعمال اور داعیانہ جذبات کی وجہ سے ہوتی ہے) اور یہ بھی آئے گا کہ ایک آدمی نے حضرت خالدؓ سے کہا: آج رومی کتنے زیادہ اور مسلمان کتنے کم ہیں۔ حضرت خالد نے کہا: نہیں، رومی کتنے کم اور مسلمان کتنے زیادہ ہیں۔ لشکر نصرتِ خداوندی سے زیادہ ہوتے ہیں اور نصرتِ خداوندی سے محروم ہوں توکم ہوجاتے ہیں۔ کثرت اور قلت کا دارومدار انسانوں کی تعداد پر نہیں ہے۔ اللہ کی قسم! میری تمنا ہے کہ میرا اَشقَرنامی گھوڑا تندرست ہوجائے اور رومیوں کی تعداد دگنی ہوجائے۔ اور یہ بھی آئے گا کہ حضرت ابوبکر ؓ نے حضرت عمرو بن العاص ؓکو یہ خط لکھا: اما بعد! تمہارا خط میرے پاس آیا جس میں تم نے لکھا ہے کہ رومیوں کے لشکر بہت زیادہ جمع ہوگئے ہیں۔ یادرکھو! اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی ﷺ کے ساتھ ہماری مدد سامان کی کثرت اور لشکروں کی کثرت کی وجہ سے نہیں کی تھی۔ ہم حضورﷺ کے ساتھ غزوے میںجایا کرتے تھے اور ہمارے ساتھ صرف دو گھوڑ ے ہوتے تھے۔ اور بعض غزوات میں اونٹ اتنے کم ہو تے تھے کہ ہم باری باری اُن پر سوار ہوتے تھے۔ اور جنگِ اُحد کے دن ہم حضورﷺ کے ساتھ تھے، ہمارے پاس صرف ایک گھوڑا تھا جس پر حضورﷺ سوار تھے اور اللہ تعالیٰ ہمارے تمام مخالفوں کے خلاف ہماری پشت پناہی کرتے تھے۔ اور پہلے یہ بھی گزر چکا ہے کہ حضرت ابوبکر ؓ نے بڑے سخت حالات کے باوجود حضرت اسامہ ؓ کا لشکر روانہ فرمایا تھا۔ ہر طرف سے عرب ان پر ٹوٹ پڑے تھے، (چند قبائل کے سوا) سارے عرب والے مرتد ہوگئے تھے، اور نفاق ظاہر ہو گیا تھا، اور یہودیت اور نصرانیت گردن اٹھانے لگی تھی۔ اور چوںکہ حضورﷺ کے حادثۂ اِنتقال کا صدمہ تازہ تھا، اور صحابہ کی تعداد کم اور دشمن کی تعداد زیادہ تھی، اس وجہ سے صحابہ کی حالت اس بکر ی جیسی تھی جو سخت سردی والی رات میں بارش میں بھیگ گئی ہو۔ اور صحابہ نے حضرت ابوبکر ؓ کو یہ مشورہ دیا تھا کہ وہ حضرت اسامہ ؓ کے لشکر کو روک لیں، لیکن حضرت ابو بکر چوںکہ صحابہ میں سب سے زیادہ سمجھ دار اور دور اندیش تھے اس وجہ سے انھوں نے کہا: کیا میں اس لشکر کو روک لوں جسے رسول اللہ ﷺ نے بھیجا تھا؟ اگر میں ایسا کروں تو یہ میری بہت بڑی جسارت ہوگی۔ اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے! سارے عرب مجھ پر ٹوٹ پڑیں یہ