حیاۃ الصحابہ اردو جلد 3 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
بصرہ والوں میں سے حضرت ثَعْلَبہ بن عبادعبدی کہتے ہیں:میںایک دن حضرت سَمُرہ بن جندب ؓ کے بیا ن میں شریک ہوا۔ انھوں نے اپنے بیان میں حضورﷺ کی طرف سے ایک حدیث بیا ن کی اور سورج گر ہن والی حدیث بھی ذکر کی۔ اس میں یہ بھی فر مایا کہ جب حضور ﷺ دوسر ی رکعت میں بیٹھ گئے تو اس وقت سو رج صا ف ہو ا اور اس کا گر ہن ختم ہو ا۔ سلام پھیر نے کے بعد آپ نے اﷲ کی حمد و ثنا بیان کی اور اس با ت کی گو اہی دی کہ آپ اﷲ کے بندے اور رسول ہیں۔ پھر فر مایا: اے لوگو! میں تمھیں ا ﷲ کا واسطہ دے کر کہتا ہوں: اگر تمھیں معلوم ہے کہ میں نے اپنے ربّ کے پیغامات پہنچا نے میں کو ئی کمی کی ہے تو مجھے ضرور بتا ئو؟اس پر بہت سے آدمیوں نے کھڑے ہو کر کہا: ہم اس بات کی گواہی دیتے ہیںکہ آپ نے اپنے ربّ کے تمام پیغام پہنچا دیے ہیں اور اپنی اُمّت کی پو ری خیر خواہی کی ہے اور جو کام آپ کے ذمہ تھا وہ پو را کردیا ہے۔ پھر آپ نے فر مایا: اما بعد! بہت سے لوگوں کا یہ خیا ل ہے کہ چاند سورج کا گرہن ہونا اور ستا روں کا اپنے نکلنے کی جگہ سے ہٹ جا نا زمین کے کسی بڑے آدمی کے مرنے کی وجہ سے ہو تاہے، یہ خیال با لکل غلط ہے۔یہ گرہن تو اﷲکی قدرت کی نشا نیوںمیں سے ایک نشانی ہے جس کے ذریعے اﷲ اپنے بندوں کا امتحان لیتے ہیں، اور دیکھتے ہیں کہ کو ن اس نشانی کو دیکھ کر کفر اور گناہوں سے تو بہ کرلیتا ہے۔ اورمیں نے جتنے وقت میں کھڑے ہو کر نمازِ گرہن پڑھائی ہے اس میںمیں نے دنیا اور آخرت میں تمھیں جو کچھ پیش آئے گا وہ سب دیکھ لیا ہے۔ اﷲ کی قسم! قیا مت اس وقت تک قا ئم نہیں ہو گی جب تک تیس جھو ٹے ظاہرنہ ہو جائیں گے جن کا آخری کانا دجال ہو گا۔اس کی بائیں آنکھ مٹی ہوئی ہوگی با لکل ایسی آنکھ ہوگی جیسے ابو تحییٰ کی آنکھ۔ حضرت ابو تحییٰ ؓ انصار کے ایک بڑے میاں تھے جو اس وقت حضورﷺ کے اور حضرت عائشہ ؓ کے حجرے کے درمیان بیٹھے ہوئے تھے۔ پھر حضورﷺ نے فر مایا: جب وہ ظاہر ہوگا تو دعویٰ کرے گا کہ وہ اﷲ ہے۔ جو اس پر ایمان لائے گا، اس کی تصدیق کرے گا اور اس کا اتباع کرے گا اسے اس کا گذشتہ کوئی نیک عمل فا ئدہ نہیں دے گا۔ اور جو اس کا انکار کرے گا اور اس کو جھٹلا ئے گا اس کو اس کے کسی عمل پر کوئی سزا نہیں دی جائے گی۔ اور حرم اوربیت المقدس کے علاوہ با قی سا ری زمین پر ہر جگہ جا ئے گا۔ اور مسلمان بیت المقدس میں محصور ہو جائیں گے۔ پھر ان پر زبر دست زلزلہ آئے گا، پھر اﷲ تعا لیٰ دجال کو ہلاک کریں گے یہاں تک کے دیوار اور درخت کی جڑ آواز دے گی: اے مؤ من! اے مسلم! یہ یہو دی ہے، یہ کا فر ہے، آاسے قتل کر۔ اور ایسا اس وقت تک نہیں ہو گا جب تک تم ایسی چیزیں نہ دیکھ لو جو تمہارے خیال میں بہت بڑی ہوں گی اور جن کے با رے میں تم ایک دوسرے سے پو چھو گے کہ کیا تمہارے نبی نے اس چیز کے بارے میں کچھ ذکر کیا ہے؟ اور (ایسا اس وقت تک نہیں ہو گا)جب تک کے کچھ پہاڑ اپنی جگہ سے ہٹ نہ جائیں۔ پھر اس کے فوراً بعد عام موت ہو گی یعنی قیا مت قائم ہو گی۔ حضرت ثعلبہ کہتے ہیں: اس کے بعد میں نے حضرت سمرہ کا ایک اور بیان سنا، اس میں انھوں نے یہی حدیث ذکر کی اور ایک لفظ بھی آگے پیچھے نہیں کیا۔1 احمد اور بزّار کی روایت میں یہ بھی ہے کہ جو اﷲ کو مضبو طی سے پکڑے گااور کہے گا : میرا ربّ اﷲ ہے، جو زندہ ہے اسے موت نہیں آسکتی، اس پر (دجال کے) عذاب کا کوئی اثر نہیں ہوگا۔ اور جو (دجال سے) کہے گا: تو میرا ربّ ہے، وہ فتنہ میں مبتلا ہو گیا۔