حیاۃ الصحابہ اردو جلد 3 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
خاک میں مل جائے (یعنی ایسا ہی ہو گا اگر چہ ابوذر کی رائے یہ ہے کہ ایسا نہ ہو)۔ حضرت انس ؓ فرماتے ہیں کہ ایک بوڑھے دیہاتی تھے جنھیں علقمہ بن عُلاثہ کہا جاتاتھا۔ انھوں نے ایک مرتبہ حضورﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا: یا رسول اللہ! میں بہت بوڑھا ہوں اب اس عمر میں قرآن نہیں سیکھ سکتا، لیکن میں اس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، اور محمد اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں، اور مجھے اس کا پکا یقین ہے۔ جب وہ بڑے میاں چلے گئے تو حضورﷺ نے فرمایا: یہ آدمی بڑا سمجھ دار ہے۔ یا فرمایا: تمہارا یہ ساتھی بڑا سمجھ دار ہے۔2 حضرت عثمان بن عفان ؓ فرماتے ہیں کہ میں نے حضورﷺ کو فرماتے ہوئے سنا کہ میں ایسا کلمہ جانتا ہوں کہ جو آدمی بھی اسے سچے دل سے کہے گا وہ آگ پر ضرور حرام ہوجائے گا۔ اس پر حضرت عمر بن خطاب ؓ نے کہا: کیا میں آپ کو بتاؤں وہ کلمہ کون سا ہے؟ یہ وہ کلمۂ اخلاص ہے جس پر اللہ تعالیٰ نے محمد ﷺ اور آپ کے صحابہ ؓکو جمائے رکھا، اور یہ وہ تقویٰ والا کلمہ ہے جس کی حضورﷺ نے اپنے چچا ابو طالب کومرتے وقت بہت ترغیب دی تھی، یعنی اس بات کی گواہی دینا کہ اللہ کے سواکوئی معبود نہیں۔1 حضرت یعلیٰ بن شداد کہتے ہیں کہ میرے والد حضرت شداد ؓ نے مجھے یہ واقعہ سنایا، اس وقت حضرت عبادہ بن صامت ؓ بھی اس مجلس میں موجود تھے اور وہ میرے والد کی تصدیق کررہے تھے۔ میرے والد نے فرمایا کہ ایک دن ہم لوگ نبی کریم ﷺ کے پاس تھے۔ آپ نے فرمایا: کیا تم میں کوئی اجنبی یعنی اہلِ کتاب (یہود) میں سے ہے؟ ہم نے عرض کیا: نہیں، یا رسول اللہ! پھر حضورﷺ نے فرمایا: دروازہ بند کر دو۔ (ہم نے دروازہ بند کردیا) پھر حضورﷺ نے فرمایا: اپنے ہاتھ اوپر اٹھا ؤ اور لاَ إِلٰہَ إِلاَّ اللّٰہُ کہو۔ چناںچہ ہم نے کچھ دیر اپنے ہاتھ اٹھائے رکھے (حضورﷺ بھی ہاتھ اٹھا ئے ہوئے تھے)، پھر حضورﷺ نے اپنے ہاتھ نیچے کیے (اور ہم نے بھی نیچے کیے) پھر آپ نے فرمایا: الحمداللہ، اے اللہ! تو نے مجھے یہ کلمہ دے کر بھیجا اور اس (پر ایمان لانے) کا حکم دیا اور اس پر جنت کاتو نے وعدہ فرمایا اور تو وعدہ خلافی نہیں کرتا۔ پھر فرمایا: غور سے سنو! تمھیں بشارت ہو کیوںکہ اللہ تعالیٰ نے تمہاری مغفرت کردی ہے۔2 حضرت رِفاعہ جُہنی ؓ فرماتے ہیں کہ ہم لوگ حضورﷺ کے ساتھ واپس آرہے تھے۔ جب ہم ’’کَدِید‘‘ یا ’’قُدَید‘‘ مقام پر پہنچے تو کچھ لوگ آپ سے اپنے گھر والوں کے پاس جانے کی اجازت مانگنے لگے۔ حضورﷺ ان کو اجازت دینے لگے۔ پھر کھڑے ہوکر حضورﷺ نے اللہ کی حمد وثنا بیان کی پھر فرمایا: ان لوگوں کو کیا ہوگیا ہے کہ ان کو درخت کا وہ حصہ جو رسول اللہ ﷺ کے قریب ہے دوسرے حصے سے زیادہ ناپسند ہے۔ بس اس بات کے سنتے ہی سب رونے لگے۔ کوئی ایسا نظر نہیں آرہا تھا جو رو نہ رہا ہو۔ ایک آدمی نے کہا: اس کے بعد جو اجازت مانگے گا وہ یقینا بڑا نادان ہوگا۔ حضورﷺ نے پھر اللہ کی حمد وثنا بیان کی اور خیر کی بات کی اور فرمایا: میں اللہ کے ہاں اس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ جو بندہ اس حال میں مرے گا کہ وہ اس بات کی سچے دل سے گواہی دے رہا ہو