حیاۃ الصحابہ اردو جلد 3 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
شہروالوں کے حافظ ہو۔ کہیں ایسے نہ ہو کہ لمبی مدت گزر جانے پر تمہارے دلوں میں سختی آجائے جیسے کہ اہلِ کتاب کے دل سخت ہوگئے تھے۔ پھر فرمایا: ایک سورت نازل ہوئی تھی جو سورۂ برأت جتنی لمبی تھی اور سورۂ برأت کی طرح اس میں سختی اور ڈانٹ ڈپٹ تھی۔ اس وجہ سے ہم کہتے تھے کہ یہ سورۂ برأت کے مشابہ ہے۔ اس کی ایک آیت مجھے یاد ہے جس کا ترجمہ یہ ہے کہ اگر ابنِ آدم کو سونے کی دو وادیاں مل جائیں تو وہ تیسری وادی کی تمنا کرنے لگے گا اور ابنِ آدم کے پیٹ کو صرف (قبر کی) مٹی ہی بھر سکتی ہے۔ اور ایک اور سورت بھی نازل ہوئی تھی جس کے بارے میں ہم کہتے تھے کہ یہ سورت مسبّحات کے مشابہ ہے، کیوںکہ وہ بھی سَبَّحَ لِلّٰہِ سے شروع ہوتی تھی۔ اس کی ایک آیت مجھے یاد ہے: {یٰٓـاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لِمَ تَقُوْلُوْنَ مَا لَا تَفْعَلُوْنَ آیت کا نشان}2 اے ایمان والو! ایسی بات کیوں کہتے ہو جو کرتے نہیں ہو؟ ہر بات گواہی بن کر تمہاری گردنوں میں ڈالی جائے گی، پھر قیامت کے دن اس کے بارے میں تم سے پوچھ ہوگی۔3 حضرت ابنِ مسعودؓ کے پاس کوفہ کے کچھ لوگ آئے۔ حضرت ابنِ مسعودؓ نے انھیں سلام کیا اور انھیں اس بات کی تاکید کی کہ وہ اﷲ سے ڈریں اور قرآن کے بارے میں آپس میں جھگڑا نہ کریں ،کیوںکہ قرآن میں اختلاف نہیں ہے۔ اور نہ اسے چھوڑا جاسکتا ہے، نہ اسے زیادہ پڑھنے سے دل اُکتاتا ہے۔ اور کیا آپ دیکھتے نہیں ہیں کہ شریعتِ اسلام کے حدود، فرائض اور اَوامر سب ایک ہی ہیں؟ اگر قرآن میں ایک جگہ کسی کام کا حکم ہوتا اور دوسری جگہ اس کی ممانعت ہوتی تو پھر تو قرآن میں اختلاف ہوتا۔ قرآن میں تمام مضامین ایک دوسرے کی تائید کرنے والے ہیں۔ اور مجھے یقین ہے کہ تم لوگوں میں علم اور دین کی سمجھ اور لوگوں سے زیادہ ہے۔ اور اگر مجھے کسی آدمی کے بارے میں یہ معلوم ہوجائے کہ وہ حضرت محمد ﷺ پر نازل ہونے والے علوم کو مجھ سے زیادہ جاننے والا ہے اور اونٹ مجھے اس تک پہنچا سکتے ہیں، تو میں(اس سے علم حاصل کرنے کے لیے) ضرور اس کے پاس جاتا تاکہ میرے علم میں اضافہ ہوجائے۔ مجھے خوب معلوم ہے کہ حضورﷺ پر ہر سال قرآن ایک مرتبہ پیش کیا جاتا تھا اور جس سال آپ کا انتقال ہوا اس سال آپ پر دو مرتبہ پیش کیاگیا تھا (رمضان میں حضرت جبرائیل ؑ حضور ﷺ کو سارا قرآن سناتے تھے اور حضورﷺ حضرت جبرئیل ؑ کو)۔ اور میں جب بھی حضور ﷺکو قرآن پڑھ کر سناتا تو حضور ﷺہمیشہ فرماتے کہ میں نے قرآن بہت اچھا پڑھا ہے۔ لہٰذا جو میری طرح قرآ ن پڑھتا ہے وہ میری طرح پڑھتا رہے اور اسے غلط سمجھ کر چھوڑے نہیں۔ اور حضورﷺ سے اور بھی کئی طرح قرآن پڑھنا ثابت ہے، جو ان میں سے کسی ایک طرح قرآن پڑھتا ہو وہ اسے نہ چھوڑے، کیوںکہ جو اِن میں سے کسی ایک طرح کا انکار کرے گا وہ باقی تمام کا انکار کرنے والا شمار ہوگا۔1 حضرت عبد اﷲؓ کے ساتھیوں میں سے ہمدان کے رہنے والے ایک صاحب بیان کرتے ہیں کہ جب حضرت عبداﷲکا مدینہ منورہ جانے کا ارادہ ہوا تو انھوں نے اپنے ساتھیوں کو جمع کرکے فرمایا: مجھے اُمید ہے کہ اب آپ لوگوں میں دین، دینی سمجھ اور قرآن کا علم