حیاۃ الصحابہ اردو جلد 3 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
ابو عثمان کی روایت میں یہ ہے کہ حضرت عمرؓ نے ہمیں خط لکھا کہ اس کے ساتھ نہ بیٹھو۔ چناںچہ جب وہ آتا اور ہم سو(۱۰۰) آدمی بھی ہوتے تو ہم بکھر جاتے۔ حضرت سعید بن مسیّب کہتے ہیں کہ صَبِیغ تمیمی حضرت عمرؓ کے پاس آیا اور اس نے سورۂ ذاریات کے بارے میں ان سے پوچھا۔آگے اور حدیث ذکر کی۔2 ابنِ اَنباری کی روایت میں یہ ہے کہ پہلے تو صَبِیغ اپنی قوم کا سردار تھا، لیکن اس واقعہ کے بعد اس کی قوم میں اس کی کوئی حیثیت نہ رہی۔3 حضرت حسن کہتے ہیں: کچھ لوگ مصر میں حضرت عبداﷲ بن عمر وؓ سے ملے اور اُن سے کہا:ہمیں اﷲ کی کتاب میں ایسی چیزیں نظر آرہی ہیں جن پر عمل کرنے کا اﷲ نے حکم دیا ہے لیکن ان پر عمل نہیں ہورہا، اس لیے ہم اس بارے میں امیر المؤمنین سے ملنا چاہتے ہیں۔ چناںچہ حضرت ابنِ عمروؓ مدینہ آئے اور یہ لوگ بھی ان کے ساتھ مدینہ آئے۔ حضرت ابنِ عمر وؓ نے حضرت عمرؓ سے ملاقات کی اور عرض کیا: اے امیر المؤمنین! کچھ لوگ مجھ سے مصر میں ملے تھے اور انھوں نے کہا تھا کہ ہمیں اﷲ کی کتاب میں ایسی چیزیں نظر آرہی ہیں جن پر عمل کرنے کا اﷲ نے حکم دیا ہے لیکن ان پر عمل نہیں ہورہا، اس لیے اس بارے میں وہ آپ سے ملنا چاہتے ہیں۔ حضرت عمرنے فرمایا: انھیں اکٹھا کرکے میرے پاس لے آؤ۔ چناںچہ حضرت ابنِ عمر وؓ انھیں اکٹھا کر کے حضرت عمرؓ کے پاس لے آئے۔ ان میں سے جو حضرت عمر کے سب سے زیادہ قریب تھا اسے حضرت عمرنے بلایا اور فرمایا: میں تمھیں اﷲ اور اسلام کا واسطہ دے کر پوچھتا ہوں کیا تم نے سارا قرآن پڑھا ہے؟ اس نے کہا: جی ہاں۔ حضرت عمرنے فرمایا: کیا تم نے سارا دل میں جما لیا ہے؟ اس نے کہا: نہیں۔ حضرت عمرنے فرمایا: کیا تم نے سارا نگاہ میں بٹھا لیاہے؟ اس نے کہا: نہیں۔ حضرت عمر نے فرمایا: کیا تم نے ساراقرآن یا د کرلیا ہے؟ کیا تم نے سارے پر عمل کرلیا ہے؟ پھر ان میں سے ایک ایک کو بلاکر ہر ایک سے یہی سوالات کیے، پھر فرمایا: عمر کو اس کی ماں گم کرے! کیا تم عمر کو اس بات کا مکلف بناتے ہو کہ وہ تما م لوگوں کو قرآن پر عمل کرنے کے لیے کھڑا کردے۔ ہمارے ربّ کو پہلے سے معلوم ہے کہ ہم سے خطائیں سرزد ہوں گی۔ پھر یہ آیت پڑھی: {اِنْ تَجْتَنِبُوْا کَبَآئِرَ مَا تُنْھَوْنَ عَنْہُ نُکَفِّرْ عَنْکُمْ سَیِّاٰ تِکُمْ وَنُدْخِلْکُمْ مُّدْخَلًا کَرِیْمًا آیت کا نشان}1 جن کاموں سے تم کو منع کیا جاتا ہے ان میں جو بھاری بھاری کام ہیں اگر تم ان سے بچتے رہے تو ہم تمہاری خفیف برائیاں تم سے دور فرمادیں گے اور ہم تم کو ایک معزز جگہ میں داخل کردیں گے۔ پھر حضرت عمرؓنے فرمایا: کیا مدینہ والوں کو معلوم ہے کہ تم لوگ کس وجہ سے آئے ہو؟ انھوں نے کہا: نہیں۔ حضرت عمرؓ نے فرمایا: اگر انھیں معلوم ہوتا تو میں تمہارے اوپر رکھ کر ان کو بھی یہی نصیحت کرتا۔2