حیاۃ الصحابہ اردو جلد 3 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
کیا: یا رسول اﷲ! ذرا یہ بتائیں کہ جب کوئی عورت خواب میں یہ دیکھے کہ اس کے خاوند نے اس سے صحبت کی ہے، تو کیا اسے غسل کرنا پڑے گا؟ یہ سن کر حضرت اُمِ سلمہؓ نے کہا: اے اُمِ سلیم! تمہارے ہاتھ خاک آلود ہوں! تم نے تو اﷲ کے رسول ﷺ کے سامنے عورتوں کو رسوا کردیا۔ میں نے کہا: اﷲتعالیٰ حق بات بیان کرنے سے حیا نہیں کرتے۔ ہمیں جب کسی مسئلہ میں مشکل پیش آئے تو اسے نبی کریم ﷺ سے پوچھ لینا اس سے بہتر ہے کہ ہم ایسے ہی اندھیرے میں رہیں۔ پھر حضور ﷺ نے فرمایا: اے اُمِ سلیم! تمہارے ہاتھ خاک آلود ہوں! اگر اسے (کپڑوں پر یا جسم پر) پانی نظر آئے تو اسے غسل کرنا پڑے گا۔ حضرت اُمِ سلمہؓ نے کہا: کیا عورت کا بھی پانی ہوتا ہے؟ حضورﷺ نے فرمایا: تو پھر بچہ ماں کے کیسے مشابہ ہوجاتا ہے؟یہ عورتیں مزاج اور طبیعت میں مردوں جیسی ہیں۔1 حضرت سعدؓ فرماتے ہیں کہ حضورﷺ کوئی بات ارشاد فرمادیتے تو بعض لوگ ایک دوسرے سے اس کے بارے میں بہت زیادہ سوالات کرتے اور پھر حضورﷺ سے پوچھنے لگ جاتے۔ جب پوچھنا شروع کرتے تو اس وقت تو وہ چیز حلال ہوتی، لیکن وہ حضورﷺ سے اس کے بارے میں اتنے سوالات کرتے کہ آخر وہ چیز اﷲ کی طرف سے حرام کردی جاتی۔2 حضرت جابرؓ فرماتے ہیں کہ لِعان کی آیتیں زیادہ سوالات کرنے کی وجہ سے نازل ہوئیں۔3 ایک دن لوگوں نے حضرت ابنِ مسعودؓسے بہت زیادہ سوالات کیے تو انھوں نے حضرت حارث بن قیس سے فرمایا: اے حار بن قیس!(شفقتًا حارث کو حار کہہ کر پکارا) تمہارا کیا خیال ہے یہ لوگ اتنا زیادہ پوچھ کر کیا کرنا چاہتے ہیں؟ حضرت حارث نے کہا: یہ لوگ تو بس سیکھ کر چھوڑ دیں گے۔ حضرت ابنِ مسعودؓنے فرمایا: اس ذات کی قسم جس کے علاوہ کوئی معبود نہیں! تم نے ٹھیک کہا۔4 حضرت ابنِ عمرؓ نے فرمایا: اے لوگو! جو چیز ابھی ہوئی نہیں اس کے بارے میں مت پوچھو، کیوںکہ حضرت عمرؓ اس آدمی پر لعنت بھیجتے تھے جو اس چیز کے بارے میں پوچھے جو ابھی ہوئی نہیں۔5 حضرت طاؤس کہتے ہیں کہ حضرت عمرؓنے فرمایا: کسی کے لیے یہ بات حلال نہیں ہے کہ وہ اس چیز کے بارے میں پوچھے جو ابھی ہوئی نہیں، کیوںکہ اﷲتعالیٰ نے ان تمام امور کے بارے میں فیصلہ فرمارکھا ہے جو آیندہ ہونے والے ہیں۔1 حضرت خارجہ بن زید بن ثابت کہتے ہیں کہ میرے والد حضرت زید بن ثابت ؓ سے جب کوئی چیز پوچھی جاتی تھی تو اس وقت تک اس کے بارے میں اپنی سمجھ سے کوئی جواب نہ دیتے تھے جب تک یہ نہ پوچھ لیتے کہ یہ بات ہوچکی ہے یا نہیں۔ اگر وہ ہوئی نہ ہوتی تو اس کا جواب نہ دیتے اور اگر ہوچکی ہوتی تو پھر اس کے بارے میں گفتگو فرماتے۔ اور جب ان سے کوئی مسئلہ پوچھا جاتا تو پوچھتے کہ کیا یہ پیش آچکا ہے؟ تو کوئی آدمی ان سے کہتا: اے ابو سعید! ابھی پیش تو نہیں آیا لیکن ہم پہلے سے اس کا جواب تیار کررہے ہیں۔ یہ فرماتے:اسے چھوڑ دو۔ اور اگر پیش آچکا ہوتا تو اس کا جواب بتادیتے۔