حیاۃ الصحابہ اردو جلد 3 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
الٓرٰ۔یہ آیتیں ہیں ایک کتاب واضح کی۔ ہم نے اس کو اتارا ہے قرآن عربی زبان کا تاکہ تم سمجھو۔ ہم نے جو یہ قرآن آپ کے پاس بھیجا ہے اس کے ذریعہ سے ہم آپ سے ایک بڑا عمدہ قصّہ بیان کرتے ہیں اور اس کے قبل آپ محض بے خبر تھے۔ اور اسے تین مرتبہ لاٹھی ماری۔ اس آدمی نے کہا: اے امیر المؤمنین! میرا قصور؟ حضرت عمر ؓ نے فرمایا: تم نے ہی حضرت دانیال ؑ کی کتابیں لکھی ہیں۔ اس آدمی نے کہا: اس بارے میں آپ مجھے جو فرمائیں گے میں وہی کروں گا۔ حضرت عمر ؓ نے فرمایا: جاؤ، اور جاکر ان پر گرم پانی ڈال کر سفید اُون سے مَل کر ان کو مٹادو، نہ خود پڑھو اور نہ کسی کو پڑھاؤ اگر مجھے پتا چلا کہ تم نے خود پڑھی ہیں یا کسی کو پڑھائی ہیں تو میں تمھیں سخت سزا دوں گا۔ پھر اس سے فرمایا: یہاں بیٹھو۔ وہ حضرت عمر ؓ کے سامنے آکر بیٹھ گیا۔ حضرت عمر ؓ نے فرمایا: ایک دفعہ میں گیا اور اہلِ کتاب کی ایک کتاب نقل کی اور اسے ایک کھال پر لکھ کر حضورﷺ کی خدمت میں لایا۔ حضورﷺ نے فرمایا:اے عمر! یہ تمہارے ہاتھ میں کیا ہے؟ میں نے عرض کیا: یا رسول اﷲ! یہ کتاب میں اس لیے لکھ کر لایا ہوں تاکہ ہمارے علم میں اضافہ ہوجائے۔ یہ سنتے ہی حضور ﷺ کو غصہ آگیا اور اتنا غصہ آیا کہ آپ کے دونوں رخسار سرخ ہوگئے، پھر (حضور ﷺ کے ارشاد پر لوگوں کو جمع کرنے کے لیے)۔ الصَّلَاۃُ جَامِعَۃٌ کہہ کر اعلان کیا گیا۔ ا نصار نے کہا تمہارے نبی ﷺ کو کسی وجہ سے سخت غصہ آیا ہوا ہے اس لیے ہتھیار لگاکر چلو، ہتھیار لگا کر چلو۔ چناںچہ انصار تیار ہوکر آئے اور آکر حضورﷺ کے منبر کو چاروں طرف سے گھیر لیا۔ حضور ﷺ نے فرمایا: اے لوگو! مجھے ایسے کلمات دیے گئے ہیں جن کے الفاظ کم اور معانی بہت زیادہ ہیں، اور وہ مہر کی طرح آخری درجے کے اور فیصلہ کن نوعیت کے کلمات ہیں، اور اﷲ تعالیٰ نے بہت مختصر کرکے مجھے عطافرمائے ہیں۔ اور میں تمہارے پاس ایسی ملت لے کر آیا ہوں جو بالکل واضح اور صاف ستھری ہے۔ لہٰذا تم حیرت اور پریشانی میں مت پڑو، اور نہ حیرت میں پڑنے والوں یعنی اہلِ کتاب سے دھوکہ کھاؤ۔ حضرت عمر ؓ فرماتے ہیں: میں نے فوراً کھڑے ہوکر عرض کیا: میں اﷲ کے ربّ ہونے پر، اسلام کے دین ہونے پر اور آپ کے رسول ہونے پر بالکل راضی ہوں۔ پھر حضورﷺ منبر سے نیچے تشریف لے آئے۔ 1 حضرت جابر ؓ فرماتے ہیں: حضرت عمر بن خطاب ؓ کو اہلِ کتاب سے ایک کتاب ملی۔ وہ اسے لے کر نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا: یا رسول اﷲ! مجھے اہلِ کتاب سے ایک بہت اچھی کتاب ملی ہے۔ یہ سنتے ہی حضورﷺ کو غصہ آگیا اور فرمایا: اے ابن الخطاب! کیا تم ابھی تک اسلام کے امور کے بارے میں حیران و پریشان ہو؟ اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے! میں تمہارے پاس ایسی ملت لے کر آیا ہوں جو بالکل واضح اور صاف ستھری ہے۔ تم اہلِ کتاب سے کچھ نہ پوچھو، کیوںکہ ہوسکتا ہے کہ وہ جواب میں تمھیں حق بات کہہ دیں اور تم اسے جھٹلا دو، یا وہ غلط بات کہہ دیں اور تم اسے سچا مان لو (ان کے ہاں حق اور باطل آپس میں ملا ہوا ہے)۔ اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے! اگر حضرت موسیٰ ؑ زندہ ہوتے تو ان کو بھی میرا ہی اِتباع کرنا پڑتا (اس کے علاوہ ان کے لیے بھی کامیابی کا اور کوئی راستہ نہ ہوتا)۔1