حیاۃ الصحابہ اردو جلد 3 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
حضرت سعد بن ہشام نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی، اور پھر مدینہ منورہ گئے تاکہ وہاں کی اپنی ساری جائیداد بیچ کر گھوڑے اور اسلحہ خرید لیں، اور مرتے دم تک روم والوں سے جہاد کرتے رہیں۔ راستہ میں ان کی اپنی قوم کے کچھ لوگوں سے ملاقات ہوئی جنھوںنے انھیں بتایا کہ حضورﷺ کے زمانہ میں ان کی قوم کے کچھ آدمیوں نے بھی ایسا کرنے کا ارادہ کیا تھا، لیکن حضورﷺ نے ان سے فرمایا تھا: کیا آپ لوگ میرے طریقے پر نہیں چلتے؟ اور انھیں ایسا کرنے سے منع فرمادیا تھا۔ اس پر حضرت سعد نے اپنی بیوی سے رجوع کرلیا اور ان لوگوںکو اپنے اس رجوع پر گواہ بنایا، پھر ہمارے پاس واپس آئے۔ اور حضرت سعدنے ہمیں بتایا کہ میں حضرت ابنِ عباسؓ کے پاس گیا تھا اور ان سے وتر کے بارے میں پوچھا تھا، تو حضرت ابنِ عباس ؓ نے فرمایا: کیا میں تمھیں ایسا آدمی نہ بتاؤں جو تمام روئے زمین والوں میں حضور ﷺ کے وتر کو سب سے زیادہ جاننے والاہے؟ میں نے کہا: ضرور بتائیں۔ حضرت ابنِ عباسؓ نے کہا: حضرت عائشہؓ کے پاس جاؤ اور ان سے پوچھو اور وہ جو جواب دیں وہ واپس آکر مجھے بھی بتانا۔ چناںچہ میں حضرت حکیم بن اَفلح ؓ کے پاس گیا اور میں نے ان سے عرض کیا کہ وہ میرے ساتھ حضرت عائشہؓ کے پاس چلیں۔ حضرت حکیم ؓ نے کہا: نہیں، میں تو ان کے قریب بھی نہیں جاؤں گا، کیوںکہ میں نے انھیں (حضرت علی اور حضرت معاویہؓکی) ان دو جماعتوں کے بارے میں کچھ فرمانے سے منع کیا تھا، لیکن وہ نہ مانیں اور اس بارے میں بہت کچھ کر گذریں۔ حضرت سعد کہتے ہیں کہ میں نے حضرت حکیم کو قسم دی تو وہ میرے ساتھ چل پڑے۔ چناںچہ ہم دونوں حضرت عائشہؓکی خدمت میں حاضر ہوئے۔ حضرت عائشہؓ نے حضرت حکیم ؓ کو پہچان لیا اور فرمایا: کیا تم حکیم ہو؟ حضرت حکیم نے کہا: جی ہاں۔ حضرت عائشہ ؓ نے پوچھا: یہ تمہارے ساتھ کون ہے؟ حضرت حکیمؓ نے کہا:یہ سعد بن ہشام ہیں۔ حضرت عائشہؓنے پوچھا: ان کے والد کون سے ہشام ہیں؟ حضرت حکیم نے کہا: وہ ابنِ عامر ہیں۔ اس پر حضرت عائشہؓ نے حضرت عامر کے لیے دعائے رحمت کی اور فرمایا: عامر تو بہت اچھے آدمی تھے۔ پھر میں نے کہا: اے اُمّ المؤمنین! حضورﷺ کے اخلاق کے بارے میں آپ مجھے بتائیں۔ حضرت عائشہؓنے فرمایا: کیا تم قرآن نہیں پڑھتے ہو؟ میں نے کہا: جی ہا ں پڑھتاہوں۔ حضرت عائشہؓنے فرمایا: حضورﷺ کے اخلاق قرآن کے مطابق تھے۔ یہ جواب سن کر میں نے مجلس سے اٹھنے کا ارادہ کیا لیکن پھر خیال آیا کہ حضور ﷺ کے رات کے قیام کے بارے میں بھی پوچھ لوں، تو میں نے عرض کیا: اے اُمّ المؤمنین!آپ مجھے حضور ﷺ کے رات کے قیام کے بارے میںبھی بتائیں۔ حضرت عائشہؓنے فرمایا: کیا تم سورۂ مزمل نہیں پڑھتے ہو؟میں نے کہا: جی ہاں پڑھتا ہوں۔ حضرت عائشہؓ نے فرمایا: اس سورت کے شروع میں اﷲ تعالیٰ نے رات کا قیام فرض کیا تھا۔ چناںچہ حضورﷺ اور آپ کے صحابہ ؓ سال بھر مسلسل رات کو اتنا لمبا قیا م کرتے رہے کہ ان کے پاؤں سوج گئے۔ اور اللہ تعالی نے بارہ مہینے تک اس سورت کی آخری آیت کو آسمان میں روکے رکھا، پھر اﷲ تعالیٰ نے آخری حصہ کو نازل فرما کر رات کے قیام میں تخفیف کردی۔ چناںچہ رات کا قیام پہلے فرض تھا پھربعد میں نفل ہوگیا۔