حیاۃ الصحابہ اردو جلد 3 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
آکر ہمارا استقبال کیا۔ حضرت عمر ؓ نے پوچھا کہ آپ اپنے پیچھے مکہ والوں کا امیر کس کو بنا کر آئے ہیں؟ حضرت نافع ؓنے کہا: حضرت عبدالرحمن بن اَبزیٰ کو۔ حضرت عمرؓ نے کہا: آپ نے تو مکہ میں ایک غلام کو ایسے لوگوں کا امیر بنادیا ہے جو قریش میں سے ہیںاور حضورﷺ کے صحابی ہیں۔ حضرت نافع ؓ نے کہا: جی ہاں،میں نے حضرت عبدالرحمن کو سب سے زیادہ اور سب سے اچھا قرآن پڑھنے والا پایا، اور مکہ ایسی سرزمین ہے جہاں ساری دنیا کے لوگ آتے ہیں، تو میں نے چاہا کہ لوگ (نماز میں) ایسے آدمی سے قرآن سنیں جو اچھا قرآن پڑھتا ہے۔ حضرت عمرؓنے فرمایا: تم نے بہت اچھا، کیا واقعی عبدالرحمن ابن اَبزیٰ ان لوگوں میں سے ہیں جن کو اﷲتعالیٰ قرآن کی وجہ سے بلند کرتے ہیں؟2 حضرت عبید بن عمیرؓ فرماتے ہیں:حج کے موسم میں مکہ کے پاس ایک چشمہ پر ایک جماعت جمع ہوگئی۔ جب نماز کا وقت آیا تو ابوالسائب کے خاندان کا ایک آدمی نماز پڑھانے کے لیے آگے بڑھا۔ اس کی زبان فصیح اور صاف نہیں تھی، تو حضرت مسور بن مخرمہؓ نے اُسے پیچھے کردیا اور دوسرے آدمی کو آگے کردیا۔ یہ بات حضرت عمر بن خطّابؓتک پہنچ گئی۔ وہاں تو حضرت عمرؓ نے انھیں کچھ نہ کہا، جب مدینہ منورہ پہنچے تو حضرت عمرؓ نے حضرت مسورؓ سے باز پُرس کی۔ حضرت مسورؓ نے کہا: اے امیر المؤمنین! آپ ذرا مجھے مہلت دیں۔ بات یہ ہے کہ اس کی زبان فصیح اور صاف نہیں تھی، اور موسم حج کا تھا۔ تو مجھے یہ خطرہ ہوا کہ حُجّاجِ کرام اس کی قرأت سن کر اسے ہی اختیار کرلیںگے۔ حضرت عمرؓ نے فرمایا: اچھا! کیا تم نے اس وجہ سے اسے پیچھے کیا تھا؟ حضرت مسورؓ نے کہا: جی ہاں۔ حضرت عمرؓنے فرمایا: پھر تم نے ٹھیک کیا۔1 حضرت طلحہ بن عبیداﷲؓ نے کچھ لوگوں کو نماز پڑھائی اور نماز کے بعد ان سے کہا: میں امامت کے لیے آگے بڑھنے سے پہلے آپ سے پوچھنا بھول گیا، کیا آپ میرے نماز پڑھانے پر راضی ہیں؟ ان لوگوں نے کہا:جی ہاں۔ اور اے حضورﷺ کے خاص صحابی! آپ کے نماز پڑھانے کو کون ناپسند کرسکتا ہے؟ حضرت طلحہؓنے فرمایا: میں نے حضورﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ جو لوگوں کو نماز پڑھائے اور لوگ اس کے نماز پڑھانے پر راضی نہ ہوں تو اس کی نماز کانوں سے بھی اوپر نہیں جاتی، یعنی اﷲ تعالیٰ اسے قبول نہیں فرماتے۔2 حضرت انس بن مالک ؓ بعض دفعہ حضرت عمر بن عبدالعزیز کے پیچھے نماز نہ پڑھا کرتے تھے، (کیوںکہ شروع میں یہ بھی بنو اُمیّہ کے خُلفا کی طرح بعض دفعہ نمازکو اتنی دیر سے پڑھتے تھے کہ نماز کا وقت ختم ہوجاتا تھا۔ بعد میں جب یہ خود خلیفہ بنے تھے تو پھر صحیح وقت پر پڑھنے لگ گئے تھے۔) تو حضرت عمر بن عبد العزیز نے ان سے پوچھا کہ آپ ایسا کیوں کرتے ہیں؟ حضرت انس ؓ نے فرمایا: میں نے حضورﷺ کو نماز پڑھتے ہوئے دیکھا ہے۔ جب تم اُن جیسی نماز پڑھتے ہو تو میں تمہارے ساتھ نماز پڑھتا ہوں اور جب تم اُن جیسی نماز نہیں پڑھتے ہو تو میں اپنی نماز پڑھ کر گھر چلا جاتا ہوں۔3