حیاۃ الصحابہ اردو جلد 3 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
فرما۔ میں نے عرض کیا: یا رسول اﷲ! آپ نے ہمیں اس حال پر پہنچادیا کہ ہم تو اب اذان کے لیے ایک دوسرے سے تلواروں سے لڑیں گے۔ حضورﷺ نے فرمایا: ہرگز نہیں اے عمر! بلکہ عن قریب ایسا زمانہ آئے گا کہ لوگ اذان کمزوروں کے لیے چھوڑ دیں گے، حالاںکہ اﷲ تعالیٰ نے مؤذنوں کے گوشت کو جہنم کی آگ پر حرام کردیا ہے۔ حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ یہ قرآن کی آیت ہے: {وَمَنْ اَحْسَنُ قَوْلًا مِّمَّنْ دَعَا اِلَی اللّٰہِ وَعَمِلَ صَالِحًا وَّقَالَ اِنَّنِیْ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ آیت کا نشان}1 اور اس سے بہتر کس کی بات ہوسکتی ہے جو(لوگوں کو) اﷲ کی طرف بلائے اور (خود بھی)نیک عمل کرے اور کہے کہ میں فرماںبرداروں میں سے ہوںـ۔ اور اس سے مراد مؤذّن ہے۔ جب وہ حَيَّ عَلَی الصَّلَاۃِ کہتا ہے تو اس نے اﷲ کی طرف بلایا، اور جب نماز پڑھتا ہے تو اس نے خود نیک عمل کیا، اور جب وہ أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰـہَ إِلَّا اللّٰہُ کہتا ہے تو وہ فرماںبردار مسلمانوں میں شمار ہو جاتا ہے۔2 حضرت ابو معشر کہتے ہیں کہ مجھے یہ بات پہنچی ہے کہ حضرت عمر بن خطابؓ نے فرمایا: اگر میں مؤذن ہوتا تو میں فرض حج تو ضرور ادا کرتا باقی نفلی حج اور عمرہ نہ کرنے کی کوئی پروا نہ کرتا۔ اور اگر فرشتے آسمان سے انسانی شکل میں اُترا کرتے تو اذان دینے میں کوئی ان سے آگے نہ نکل سکتا۔3 حضرت قیس ابی حازمکہتے ہیں : ہم لوگ حضرت عمر بن خطابؓ کے پاس گئے تو انھوں نے فرمایا: تمہارے مؤذن کون لوگ ہیں؟ ہم نے کہا: ہمارے غلام اور آزاد کردہ غلام۔ تو فرمایا: یہ تو تمہارا بہت بڑا نقص ہے۔ اگر میرے بس میں ہوتا تو خلیفہ نہ بنتا بلکہ مؤذن بنتا۔1 حضرت علیؓفرماتے ہیں کہ مجھے اس بات پر بہت افسوس ہے کہ میں نے حضورﷺ سے حسن و حسینؓکے لیے اذان کیوں نہیں مانگ لی۔ اگر میں مانگتا تو حضورﷺ دونوں کو مؤذن بناتے۔ 2 حضرت ابنِ مسعودؓفرماتے ہیں : مجھے یہ پسند نہیں ہے کہ تمہارے مؤذن نابینا لوگ ہوں (کہ وہ طہارت کا اور نماز کے صحیح وقت کا خیال نہیں رکھ سکیں گے) یاقاری لوگ ہوں(کہ ان کے پڑھانے اور تعلیم کا حرج ہوگا)۔3 حضرت یحییٰ بکّاء کہتے ہیں کہ ایک آدمی نے حضرت ابنِ عمرؓ سے کہا کہ میں آپ سے اﷲکے لیے محبت کرتا ہوں۔ حضرت ابنِ عمرؓ نے فرمایا:لیکن میں تو تم سے اﷲکے لیے بغض رکھتا ہوں۔ اس آدمی نے پوچھا: کیوں؟ حضرت ابنِ عمرؓ نے فرمایا: کیوںکہ تم اذان میں گانے کی آواز بناتے ہو اور پھر اذان پر اُجرت بھی لیتے ہو۔4 نبی کریم ﷺ نے حضرت خالد بن سعید بن عاصؓ کو یمن بھیجا اور فرمایا: اگر تم کسی بستی کے پاس سے گزر و اور تمھیں وہاں سے اذان کی آواز سنائی نہ دے، تو (حملہ کرکے) ان لوگوں کو قیدی بنالینا۔ چناںچہ قبیلہ بنو زَ بید کے پاس سے ان کا گزر ہوا تو انھوں نے وہاں