حیاۃ الصحابہ اردو جلد 3 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
چھوڑا جب تک انھوں نے ان کے معبودوں کی تعریف نہ کی۔ تو انھوں نے حضورﷺسے عرض کیا کہ مجھے اتنی تکلیف پہنچائی گئی کہ آخر مجھے مجبور ہوکر آپ کی گستاخی کرنی پڑی اور ان کے معبودوں کی تعریف کرنی پڑی۔ آپ نے فرمایا: تم اپنے دل کو کیسا پاتے ہو؟ انھوں نے کہا:میں اپنے دل کو مطمئن پاتا ہوں۔1 اور ’’امیر کا کسی کو اپنے بعد خلیفہ بنانے‘‘ کے عنوان میں گزرچکا ہے کہ حضرت ابوبکر ؓ نے فرمایا: کیا تم لوگ مجھے میرے ربّ سے ڈراتے ہو؟ میں کہہ دوں گا: اے اللہ! میں نے تیری مخلوق میں سے سب سے بہترین آدمی کو ان کا خلیفہ بنایا تھا۔ دوسری روایت میں یہ ہے کہ آپ نے فرمایا:میں اللہ کو اور حضرت عمر کو تم دونوں سے زیادہ جانتا ہوں۔ اور’’بیتُ المال کے سارے مال کو تقسیم کردینے‘‘ کے عنوان میں یہ گزرچکا ہے کہ ایک آدمی نے حضرت عمر ؓ سے کہا: اے امیر المؤمنین! ہوسکتا ہے کہ کبھی دشمن حملہ آور ہوجائے یا مسلمانوں پر اچانک کوئی مصیبت آپڑے، تو ان ضرورتوں کے لیے اگر آپ اس مال میں سے کچھ بچاکر رکھ لیں تو اچھا ہوگا۔ یہ سن کر حضرت عمر ؓ نے فرمایا: تمہاری زبان پر شیطان بول رہا ہے اور اس کا جواب اللہ مجھے سکھارہاہے اور اس کے شر سے مجھے بچارہاہے۔ اور وہ یہ ہے کہ میں نے ان تمام ضرورتوں کے لیے وہی سب کچھ تیار کیا ہوا ہے جو حضورﷺ نے تیار کیا تھا، اور وہ ہے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی اطاعت (ہرمصیبت کا علاج اور ہر ضرورت کا انتظام اللہ ورسول کی ماننا ہے)۔ دوسری روایت میں یہ ہے کہ کل کو پیش آنے والی ضرورت کے لیے میں آج اللہ کی نافرمانی نہیں کرسکتا۔ اور ایک روایت میں یہ ہے کہ میں نے مسلمانوں (کی ضرورت) کے لیے اللہ کا تقویٰ تیار کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: { وَمَن یَّتَّقِ اللّٰہَ یَجعَل لَّہٗ مَخْرَجًا}2 اور جو شخص اللہ سے ڈرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے لیے (مضرتوں سے) نجات کی شکل نکال دیتا ہے اور اس کو ایسی جگہ سے رزق پہنچاتا ہے جہاں اس کا گمان بھی نہیں ہوتا۔ ’’صحابہ کے مال خرچ کرنے کے شوق‘‘ کے باب میں یہ گزرچکا ہے کہ جب حضرت علی ؓ نے سائل کو صدقہ دینے کا ارادہ کیا تو حضرت فاطمہؓ نے کہا: وہ چھ درہم تو آپ نے آٹے کے لیے رکھوائے تھے۔ حضرت علی ؓ نے کہا: کسی بھی بندے کا ایمان اس وقت تک سچا ثابت نہیں ہوسکتا جب تک کہ اس کو جو چیز اس کے پاس ہے، اِس سے زیادہ اعتماد اُس چیز پر نہ ہوجائے جو اللہ کے خزانوں میں ہے۔ اور ’’مال واپس کرنے‘‘ کے باب میں یہ گزرچکا ہے کہ حضرت عامر بن ربیعہؓ نے کہا: مجھے تمہاری زمین کے اس ٹکڑے کی کوئی ضرورت نہیں، کیوںکہ آج ایک ایسی سورت نازل ہوئی جس نے ہمیں دنیا ہی بھلادی ہے اور وہ سورت یہ ہے: {اِقْتَرَبَ لِلنَّاسِ حِسَابُھُمْ وَھُمْ فِیْ غَفْلَۃٍ مُّعْرِضُوْنََ آیت کا نشان}1 ان (منکر) لوگوں سے ان کا (وقت) حساب نزدیک آپہنچااور یہ (ابھی) غفلت (ہی) میں (پڑے ہیں اور) اِعراض کیے ہوئے ہیں۔