احتساب قادیانیت جلد نمبر 58 |
|
بنا پر خود رسول اﷲa اﷲ ہی سے استمداد اور استعانت چاہا کرتے تھے۔ اور اپنے اس نمونہ سے امت کو گھیر گھار کر محض اسی نقطہ پر متفق فرمایا کرتے تھے اور ہرحال میں یہ کہنے پر مامور تھے ’’قل لا املک لنفسی ضرا ولا نفعا الا ماشاء اﷲ (یونس:۴۹)‘‘یارسول اﷲ کے جواز میں حکیم صاحب نے ایک نئی شاخ فرط محبت کے اظہار کی نکال کر دنیا کو ایک تازہ مفہوم کا سبق دیا ہے۔ مگر ساتھ ہی ایک ناجائز کو جائز قرار دینے میں بہت سی ناجائز وبے ربط باتوں سے ان کو کام لینا پڑا۔ یہ تو بالبداہت ثابت ہے کہ ہر زندہ شخص کو خواہ وہ کافر ہے بالمقابلہ یا کہہ کر مخاطب کیا جاتا ہے۔ لیکن جب وہ غائب ہو تو اس حاضرانہ خطاب کا مستحق سوائے خدائے حی القیوم سمیع وبصیر کے کوئی نہیں ہوسکتا۔ خواہ نبی ہی کیوں نہ ہو۔ حکیم صاحب اپنے دعوے کے ثبوت میں یہ فرماتے ہیں ’’کیا جب اﷲ کو یا کہہ کر پکارا جاتا ہے تو وہ سامنے حاضر ہوتا ہے حئی طور پر تو اس کا ثبوت نہیں…الخ‘‘ سبحان اﷲ یہاں تو حکیم صاحب نے غضب ہی ڈھا دیا اور اپنی ساری حکمت اور تبحر علمی کی قلعی کھول دی اس کے جواب کو طول نہ دے کر ہم صرف اتنا ہی کہنے پر اکتفا کریں گے ؎ فقیر بے معرفت نہ آرامد تار کارش بکفر نہ انجامد افسوس ایک تعصب سو جہالتوں کی ماں بن جاتا ہے۔ مرزا قادیانی کی تعلیمات وحکیم صاحب کی تلقینات کا مقابلہ کرتے وقت ہم ششدر رہ جاتے ہیں کہ یا اﷲ یہ چراغ تلے اندھیرا کیسا؟ چنانچہ الحکم کے اسی پرچہ کے ص۲؍ کالم۲ میں ناظرین ملاحظہ کریں کہ مرزا قادیانی ایک دقیق مسئلہ کی حمایت کس دروکے ساتھ کررہے ہیں جس سے حکیم صاحب کو حل مسائل کو بھاگتے رستہ نہیں ملتا۔ پیریا استاد تو خدائی رستہ طے کریں اور مرید یا شاگرد اس پر کانٹے بچھاتے رہیں۔ ؎ ایں چنیں ارکان دولت خانہ ویرانی کنند حکیم صاحب سے ہم مؤدبانہ التجا کرتے ہیں کہ جب کہ حکیم الامت کا خطاب ان کو مرزا قادیانی سے مل چکا ہے۔ تو ان کو چاہئے کہ اپنی حکمت کی گدی پر بیٹھے رہیں مگر مسند رسالت کا کو نہ دبا دیں کیونکہ ؎ ہر سخن موقع وھر نکتہ مقامے دارد ایڈیٹر الحکم کو بھی چاہئے کہ اپنے اخبار کے کالموں میں جو صرف مرزا قادیانی کی مشن کا