احتساب قادیانیت جلد نمبر 58 |
|
پانچواں! حضرت کی مخالفت جس کا جی چاہے کرے۔ عدالت ہو یا کوئی اور مگر چند روز میں حقیقت کھل جائے گی۔ ہندوستان میں ابھی تک طاعون موجود ہے وہ تو حضرت کے مخالفوں ہی کے لئے آیا ہے مگر افسوس ہے کہ یہ لوگ نہیں سمجھتے۔ اور کیونکر سمجھیں ’’صمٌ بکمٌ عمیٌ فہم لایرجعون‘‘ مرزا اور مرزائیوں کو اچھی طرح یاد رکھنا چاہئے کہ عدالتیں ہمیشہ یہ امر ملحوظ رکھتی ہیں کہ فلاں مقدمے کے فیصلے کا پبلک پر کیا اثر پڑے گا۔ وہ صرف ملزم یا مدعا علیہ کی حیثیت اور صفائی مدنظر نہیں رکھتیں کیونکہ مصلحت بھی ایک چیز ہے جس کا ہر حالت میں ملحوظ رکھنا عدالتوں کا فرض ہے اور ظاہر ہے کہ مرزا قادیانی کے کاروبار اور کارخانے کاجہاز دغا اور فریب کے دریا میں چل رہا ہے۔ اگر ایک مقدمہ میں بھی کامیاب ہوجائیں تو آسمان سرپر اٹھالیں زمین کو روند ڈالیں اور وہ لوٹ کھسوٹ مچائیں کہ کچھ نہ پوچھئے۔ اسی مقدمہ میں دیکھئے کہ کس قدر الہامات کا مینہ برس رہا تھا اور اخباروں میں پیشینگوئیاں مشتہر ہورہی تھیں۔ کیا وہ حکام کی نظر سے نہیں گزرتی تھیں۔ پیشینگوئیاں اور الہامات کے شائع کرنے سے مرزا قادیانی اپنے مقدمات کا فیصلہ کرچکے تھے۔ گویا عدالت کو بتا چکے تھے کہ مقدمہ میرے حق میں فیصل ہوجانا چاہئے۔ یہ درحقیقت توہین عدالت تھی مگر اوچھا پن، کم ظرفی، حماقت کی نحوست تو قسمت میں لکھی تھی۔ وہ کیونکر ٹلتی حکام وقت نے دیکھا کہ مرزا دنیا کے ٹھگنے کے لئے خدائی کے دعوے کررہا ہے۔ پس اس کے غرے ڈبوں کا سر ٹوٹنا چاہئے ورنہ پبلک کو نقصان پہنچے گا۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا پس مجدد السنہ مشرقیہ کی پیشینگوئی پر مرزا اور مرزائیوں کو ایمان لانا چاہئے کہ وہ اپنے کسی دعوے میں عدالت سے کامیاب نہ ہوں گے۔ اور بجز رسوائی اور تفضیح اور نقصان کے کچھ حاصل نہ ہوگا انشاء اﷲ تعالیٰ۔ اور غور سے دیکھئے تو مرزا قادیانی کے حق میں ناکامی ہی مفید ہے ’’ولولبسط اﷲ الرزق لعبادہ لبغوا فی الارض (الشوریٰ:۲۷)‘‘ اس کا ترجمہ فارسی میں کسی شاعر نے یوں کیا ہے ؎ نامرادم دارداین افزونی خواہد بدہر آب برمن بستہ اند آرے ز استقائے من مجرم کو سزا ملنا اور اس کا ناکام رہنا درحقیقت اس کے حق میں سود مند ہے ورنہ عادی بننے پر مآل کی ہلاکت ہے۔ عدالتوں کے دماغ تو بڑے ہوتے ہیں تھوڑی سی عقل والا بھی مرزا قادیانی کے لغویات وخرافات اور متضاد ومتناقض دعوئوں کو نہیں مان سکتا۔ اورآج کل تو دنیا پر فلسفے کا قبضہ ہے۔ کوئی بات بے دلیل مانی نہیں جاتی۔ افسوس ہے کہ مرزا قادیانی کو ٹھوکر کھاکر بھی عقل نہیں