احتساب قادیانیت جلد نمبر 58 |
|
جو اگر ضرورت پڑی تو پبلک میں ظاہر کیا جائے گا۔ خدا کرے کہ ان کے پیش کرنے کی ضرورت ہی پیش نہ آئے۔ تب مجھے یقین ہوگیا کہ بشیر احمد سچا ہے اور یہ سب افعال جو اس نے بیان کئے ہیں آپ سے سرزد ہوتے رہتے ہیں۔ مگر باوجود ان تمام باتوں کا علم ہو جانے کے جو میرے اور میری بیوی کے لئے سخت دکھ کا موجب تھیں اور جنہوں نے ہم دونوں کی صحت پر اتنا گہرا اثر کیا کہ آج تک بھی ہم اپنی صحت (Recover) نہیں کر سکے۔ کافی عرصہ تک ہم دونوں کمرہ میں اکیلے دروازہ بند کر کے روتے رہتے تھے۔ بچے بھی ہماری حالت دیکھ کر سخت پریشان تھے۔ مگر ان کو کوئی علم نہیں کہ کیا معاملہ ہے۔ وہ ہماری آنکھیں سرخ دیکھتے اور سہم جاتے۔ مگر ادب کی وجہ سے وجہ دریافت نہ کرتے۔ باوجود اس قدر شدید صدمہ کے پھر بھی میں نے اس قدر شرافت سے کام لیا اور اپنے نفس پر اس قدر قابو رکھا کہ کسی کے سامنے ان باتوں کا اظہار نہیں کیا۔ یہاں تک کہ جن لوگوں سے مجھے مختلف واقعات کا علم ہوتا رہا ان سے بھی صرف واقعات سنتا رہا اور یہاں تک احتیاط سے کام لیا کہ کسی ایک کو بھی کسی دوسرے کو بتائے ہوئے واقعات کا علم نہ ہونے دیا۔ اس کا علم صرف اس کے بتائے ہوئے واقعات تک ہی محدود رہنے دیا اور ادھر بشیر احمد کو یہ سمجھایا کہ ’’ان الحسنٰت یذہبن السیئات‘‘ کے ماتحت ممکن ہے۔ اﷲتعالیٰ معاف کر دے اور اسے تاکید کی کہ کسی کے سامنے اب ان باتوں کو دہرانا نہیں حتیٰ کہ اگر کوئی پوچھے بھی تو صاف انکار کر دینا۔ کیونکہ یہ ہمارا فرض ہے کہ مسیح موعود کی اولاد کی پردہ پوشی کریں۔ بشیر احمد نے جب دیکھا کہ آپ میرے خلاف پروپیگنڈا کر کے مجھے جماعت میں گرانے کی کوشش کر رہے ہیں اور ادھر اس کو بھی گرانے کے در پے ہیں تو اس نے کئی دفعہ مجھ پر زور دیا کہ میں اعلان کر دوں۔ لیکن میں نے اس کو ہمیشہ صبر ہی کی تلقین کی۔ آخر تنگ آکر اس نے خود اعلان کا فیصلہ کر لیا اور ایک اعلان لکھ کر میری طرف بھیج دیا۔ چنانچہ اسے بجنسہ اس خط کے ساتھ ارسال کر رہا ہوں۔ یہ بھی اﷲتعالیٰ کا شکر ہے کہ اس نے اجازت کے بغیر شائع نہیں کر دیا۔ ورنہ سبق الصیت القول والی مثل صادق آجاتی اور پھر چھٹا ہوا تیر واپس لانا مشکل ہو جاتا۔ لیکن میں اسے ہمیشہ روکتا رہا اور اس اعلان کو بھی روک لیا اور ہمیشہ اسے یہی تلقین کی کہ خواہ وہ کتنا ہی ہم کو بدنام کر لیں اور کتنی ہی کوشش ہمیں جماعت کی نظر میں گرانے کی کر لیں۔ ہم نے ابتداء نہیں کرنی اور ہماری طرف سے یہی کوشش رہے گی کہ ہم صبر سے برداشت کرتے چلے جائیں۔ حتیٰ کہ وقت آجائے کہ ہم اﷲتعالیٰ کے نزدیک جوابی طور پر اپنا بیان شائع کرنے پر مجبور سمجھے جائیں تو جب کسی سے مقابلہ آپڑے تو مقابلہ میں کامیابی حاصل کرنے کے لئے جو نقطہ نگاہ ہوتا ہے اس کے لحاظ سے ہمارا Defence بہت بعد از وقت ہوگا۔ لیکن