احتساب قادیانیت جلد نمبر 58 |
وقت تک باوجود آپ کی غلط کاریوں کا علم ہو جانے اور اپنے خلاف غلط کاروائیوں کودیکھنے کے خاموش چلا آرہا ہوں۔ اس کی وجہ کسی قسم کے مالی جانی نقصان کا ڈرنہ تھا۔کیونکہ علماء ربانی حق گوئی کے مقابلہ میں کسی نقصان سے خواہ وہ کتنا بڑا ہی کیوں نہ ہو نہیں ڈرا کرتے۔ لیکن وہ جہاں ’’لا یخافون لومۃ لائم‘‘ کا مصداق ہوتے ہیں۔ وہاں وہ حق گوئی کا محل اور موقعہ بھی دیکھتے ہیں اور اس کے اظہار اور عدم اظہار میں موازنہ بھی کرتے ہیں۔ اپنے ذاتی نفع نقصان کو مدنظر رکھ کر نہیں بلکہ وہ یہ دیکھتے ہیں کہ اسلام اور سلسلہ حقہ کے حق میں ’’ضرہ اکبر من نفعہ بانفعہ اکبر من ضررہ‘‘ ہے۔ اس میں اگر خاموش تھا اور ہوں تو محض اس لئے کہ میں اس کے اظہار کو سلسلہ کے لئے مضر یقین کرتا تھا۔ نہ صرف کرتا تھا بلکہ اب بھی کرتا ہوں۔ دوسری بات جو اس گند کے اظہار کے لئے میرے لئے مانع تھی اور ہے وہ مسیح موعود فداہ روحی وجسمی کے بے انتہاء احسانات تھے جن کے نیچے سے ہماری گردنیں کبھی نکل ہی نہیں سکتیں۔ پس ان احسانات کو دیکھتے ہوئے طبیعت اس بات کو قطعاً گوارا نہیں کر سکتی کہ حضور کی اولاد کا مقابلہ کیا جائے یا انہیں بدنام کیا جائے۔ تیسری بات جو میرے لئے مانع تھی وہ آپ سے دیرینہ تعلقات اور ایک حد تک آپ کے احسانات تھے۔ گو جو ظلم آپ نے مجھ پر، میری اولاد کو اپنے گندہ نمونہ کے ذریعہ سے اور سلسلہ حقہ سے منحرف کرنے اور ان کو دہریہ بنانے کی کوشش میں کیا۔ وہ اتنا بڑا ہے کہ وہ احسانات اس کے مقابلہ میں بالکل ہیچ ہیں اور قطعاً قابل ذکر نہیں رہے۔ تعجب ہے مجھے تو ان دیرینہ تعلقات کا اس قدر پاس ہو کہ آپ کے گندے افعال کا ذکر آپ کے سامنے کرنے سے بھی شرم محسوس کروں اور محض اس خیال سے کہ میرے سامنے آنے سے آپ کو شرم محسوس ہوگی۔ آپ کے سامنے آنے سے حتیٰ الوسع اجتناب کرتا رہا ہوں۔ لیکن ان تعلقات کا آپ کو اتنا بھی پاس نہ ہوا جتنا کہ ایک معمولی قماش کے بد چلن انسان کو ہوتا ہے۔ میں نے سنا ہوا ہے۔ بدچلن سے بدچلن آدمی بھی اپنے دوستوں کی اولاد پر ہاتھ ڈالنے سے احتراز کرتے ہیں۔ لیکن افسوس آپ نے اتنا بھی نہ کیا اور اپنے ان مخلص دوستوں کی اولاد پر ہی ہاتھ صاف کرنا چاہا۔ جو آپ کے لئے اور آپ کے خاندان کے لئے جانیں تک قربان کر دینا بھی معمولی قربانی سمجھتے تھے۔ میرے اخلاص کا تو یہ عالم تھا کہ جس وقت فضل داد سے اجمالی علم ہوا اور پھر بشیر احمد نے اس کی تفصیلی تصدیق کی تو میرا یہی فیصلہ تھا کہ بشیر احمد کو گھر سے نکال دوں اور ہمیشہ کے لئے اس سے تعلقات منقطع کر دوں۔ مگر میں نے اس سے نرمی اس لئے کی کہ اس کے ذریعہ سے اب میں اس سازش کا پتہ لگانے میں کامیاب ہو جاؤں گا۔ جس کے متعلق میں پہلے یقین کئے بیٹھا تھا کہ آپ