احتساب قادیانیت جلد نمبر 58 |
|
نہ بد امنے زحیار سد نہ بدستگاہ دعارسد چور سد بہ نسبت پار سد کف دست آبلہ دارما یعنی میرے ہاتھ میں پائے آبلہ دار کی نسبت ہے نہ تو کسی کے دامن تک پہنچتا ہے کیونکہ سب لوگ حیا اور عار کرتے ہیں۔ دامن تک نہیں چھونے دیتے نہ دعا کے لئے اٹھتا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ جس طرح آبلہ دار پائوں ایک جگہ سے دوسری جگہ نہیں پہنچتا۔ یہی حالت میرے ہاتھ کی ہے گویا وہ ہاتھ نہیں رہا بلکہ پائے آبلہ دار بن گیا ہے۔ طرح طرح کے رنگ بدلنے سے اس عیار کے دو مطلوب ہیں۔ ایک تو شہرت۔ دوم… الو کے پٹھوں کا امتحان کہ پنجرے سے نکلتے ہیں یا نہیں اور حافظ شیراز کایہ شعر پکڑ کر اور یا بدوح کی ہانک لگا کر پھر ہوجاتے ہیں یا نہیں ؎ ما مریدان رو بسوئے کعبہ چوں آریم چوں رو بسوئے لعبتان دیر دار وپیرما مگر مرزا قادیانی کا عندیہ پورا ہوتا جاتا ہے اور جتنے روپ اور سوانگ بدلے جاتے ہیں۔ تمام چیلے جان اور ایمان سے اس ٹھیٹھڑ کے نظارے کے بڑے بھاری فدائی تماشائی نظر آتے ہیں اور ہر مرید یہ شعر پڑھتا ہے۔ صنم تصوب عندرویۃ خدہا آراء من عکفوا علی النیران یعنی میرا معشوق ایسا صنم ہے کہ جب اس کا بھبوکا رخسار دیکھا جاتا ہے تو آتش پرستوں کی عقلیں صواب پر معلوم ہوتی ہیں۔ یعنی ان کا آتش پرست ہوجانا بجا ہے۔ کیونکہ آگ میں اس صنم کے رخسارہ کی جھلک ہے۔ ہم کو گنیش جی کے روٹ میں حصہ لگانے والوں اور زندہ پیر کے چڑہاوے کا ملیدہ چکھنے والوں کا تو خیال نہیں جو دین بدنیا فروش ہیں۔ البتہ مولوی نور الدین سے صاحب سے ہمدردی سے جو کسی زمانے میں اہلحدیث تھے۔ اگر وہ اب بھی بروزی کے ہتھکنڈوں سے عبرت حاصل نہ کریں تو سخت افسوس ہے۔ کیا کانشنس قوت ممیزہ بالکل ہی مسخ ہوگئی۔ کیا قرآن وحدیث کو بالکل ہی جواب دے دیا۔ تقلید شخصی تو بد دینی تھی۔ مگر ایک رنگ برنگ کے روپ بدلنے والے کی تقلید بلکہ غلامی اور عبدیت عین دین وایمان ہے اناﷲ۔ اب رہی تاویل۔ یہ مذہب والا کرسکتا ہے اور زبردست دلیل پیش کرسکتا ہے۔ وہم