احتساب قادیانیت جلد نمبر 58 |
|
درشنی کا یہ عالم تھا کہ خاک اور دھول کے اڑانے سے ایک اندھیرے کی صورت پیدا ہورہی تھی۔ کاش اس روز بادل ہی چمکا ہوتا تو ہم سمجھتے کہ مرزا قادیانی کی خاطر آسمان پر روشنی ہوئی ہے۔ جیسا کہ خود ان کا خیال ہے۔ چنانچہ ۱۱؍مئی ۱۹۰۳ء کے اشتہار میں لکھتے ہیں کہ آج جو میں بیماری سے اٹھ باہر آیا ہوں اور بادل چمک رہا ہے۔ بارش بھی کسی قدر ہورہی ہے۔ یہ اسی طریق سے ہے۔ جو بادشاہوں کے آنے پر سڑکوں پر چھڑکائو کیا جاتا ہے اور آتشبازی چھوڑی جاتی ہے۔ اسی طرح ہماری (خود بدولت) باہر تشریف آوری کی وجہ سے آسمان پر چھڑکائو ہوا ہے۔ اور آتش بازی چھٹی ہے (حاضرین) سبحان اﷲ جل جلالہ امام الزمان کی برکت ہے مگر شقی ازلی ایسے صریح معجزات بھی دیکھ کر بدنصیب رہے۔ خیر خدا خدا کرکے حضرت فرودگاہ تک پہنچے اور لیکچر لکھنے میں مشغول ہوئے۔ ۲؍نومبر کی تاریخ لیکچر کے لئے تھی کیا تھا وہی معمولی شاعروں کی طرح بطور تشبیب چند لفظوں میں اسلام کی تعریف اور آریوں سے دوچار ہوکر اپنی تعریف کہ میں ایسا ایسا ہوں میں یہ ہوں میں وہ ہوں۔ ہاں ایک بات نئی لیکچر میں کہی گئی جو اس سے پہلے نہ سنی گئی تھی۔ جس کا خود حضرت کو بھی اقرار ہے کہ آج سے پہلے میں نے یہ بات ظاہر نہیں کی تھی یعنی آپ نے فرمایا کہ میں مسلمانوں اور عیسائیوں کے لئے تو میں مسیح موعود ہوکر آیا ہوں مگر ہندوئوں اور آریوں کے لئے خدا نے مجھے کرشن جی بنا کر بھیجا ہے۔ اس دعوے کو سن کر صاحب مجسٹریٹ کیمپ سیالکوٹ نے مسلمانوں سے کہا کہ اب تم جائو مرزا قادیانی جانیں اور ہندو جانیں مگر مسلمانوں کو اپنے پیدائشی مسلمانوں کی جدائی کہاں گوارہ تھی۔ جس حال میں کہ وہ بابو عبدالغفور نو آریہ کی جدائی کو ابھی تک نہیں بھولے تھے۔ حالانکہ بابو مذکور ایک کمسن بائیس تیئس سالہ عمر کا لڑکا اور مرزا قادیانی ایک معمر تجربہ کار مسن۔ پھر بھلا ایسے گرگ کہن کی جدائی مسلمانوں کو کہاں گوارہ ہوسکتی ہے۔ چنانچہ جہاں تک ہوسکا مرزا قادیانی کا ساتھ دیا۔ روانگی کے وقت بدستور ریلوے سٹیشن تک جیسا استقبال کیا تھا اس سے بڑھ کر استد بار کیا۔ بلکہ مزید بات یہ ہوئی کہ مسلمانوں نے قادیانی کرشن جی کی مہما میں اپنے اسلامی اخلاق کو بھی بالائے طاق رکھ دیا۔ چلتی گاڑی کے وقت سٹیشن سے ایک طرف پرہ باندھ کر کھڑے ہوگئے اور مرزا قادیانی کی مستورات کے سامنے جوش جنوں میں ننگے ہوکر ناچتے رہے مگر ان کا بیان ہے کہ اس کی وجہ بھی مرزا قادیانی کی مستورات ہوئی ہیں۔ جنہوں نے ریل گاڑی پر بیٹھ کر اپنی مبارک پاپوش