احتساب قادیانیت جلد نمبر 58 |
|
لئے سول سرجنوں کی فیس کا غم۔ کبھی معتبر گواہوں کے بہم پہنچانے کا اندیشہ وغیرہ۔ دغا کا مقدمہ جو مولوی کرم الدین پر دائر تھا ڈسمس اور دس بارہ الہاموں کا ناحق خون ہوگیا۔ مولوی صاحب والے مقدمہ میں جناب موصوف پر فرد قرارداد جرم لگ چکی تھی۔ مگر لالہ چندو لعل صاحب کی تبدیلی پر ازسرنوتحقیقات شروع ہوئی اور نئی تحقیقات میں مرزا قادیانی کی نازک حالت سے صاف پایا جاتا ہے کہ آپ نے اپنے ادعائے رسالت سے رجوع بحق کرلیا ہے۔ گوبظاہر زبان سے اقرار نہ کریں۔ کیونکہ تقریر اور تاویل کا میدان تو بہت وسیع ہے۔ اگر عبداﷲ آتھم کا رجوع بحق سمجھا جائے تو مرزا قادیانی بھی اس رجوع بحق سے بچ نہیں سکتے۔ اگر مقدر سے بچ گئے تو بہت اچھلے کودیں گے اور کہیں گے کہ ہم نے اپنا الہام ظاہر کردیا تھا کہ آخر الامر ہماری ہی جیت ہوگی۔ اگر کچھ حرج مرج ہوگیا اور جرمانہ یا قید کی سزا مل گئی تو مریدان مخلص یہ تاویل کرکے اپنے دل کی تسلی کرلیں گے کہ کیا پہلے پیغمبروں کو تکلیفات پیش نہیں آئیں؟ اور بالخصوص کیا حضرت یوسف علیہ السلام اتنی مدت قید خانہ میں نہیں رہے گو ایک ادنیٰ سمجھ کا آدمی بھی جانتا ہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام نے ارتکاب فعل سے بچنے کے لئے ’’رب السجن احب الیّ ممّاید عوننی الیہ‘‘ قید خانہ کو اپنی ذات پر لازم کیا تھا۔ مگر مرزا قادیانی نے عمداً ایک خداکے ماننے والوں قرآن شریف پر ایمان رکھنے والوں آنحضرتa کا کلمہ پڑھنے والوں کو صریح گالیاں دیں۔ حضرت مولانا نذیر حسین صاحب دہلوی حضرت پیر مہر علی شاہ صاحب جیسے پاک لوگوں کے حق میں جو جو جگر خراش سخت کلمات مرزا قادیانی کے قلم وزبان سے نکلے ان کا اعادہ کرتے وقت بدن پر رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ کاش مسلمان جیتے جاگتے ہوتے اور مرزاقادیانی کی تصانیف پڑھ کے دیکھتے کہ اس میں کس قدر قرآن شریف کی ہتک کی گئی ہے۔ ہم کہتے ہیں کہ مرزا قادیانی ان جرموں کی پاداش میں جس قدر سزائیں بھگتیں عین حق اور انصاف ہے اور خداوند تعالیٰ جو دیرگیر اور سخت گیر ہے۔ مرزا قادیانی کو ان بے ادبیوں کا مزا ضرور چکھا دے گا چنانچہ حال ہی میں اس ایک خط خاص قادیان سے ہمارے ایک دوست کے نام آیا ہے جس میں مرزا قادیانی کی نازک حالت بیان کی گئی ہے۔ اس پر ہم بغیر افسوس کیا کہہ سکتے ہیں وہ خط یہ ہے۔