احتساب قادیانیت جلد نمبر 58 |
|
فرما رہے ہیں کہ طاعون میں نے پیدا کیا ہے اور وہ سایہ کی طرح میرے ساتھ رہتا ہے۔ میں اپنے منکروں کو ہلاک کرتا ہوں اور جو لوگ مجھ پر ایمان لاتے ہیں ان کو زندہ چھوڑتا ہوں۔ میں اس صورت میں محی بھی ہوں اور ممیت بھی۔ قانون قدرت تو محدود ہے جو احیاء اموات نہیں کرسکتا۔ مگر میری بروزی قدرت کا قانون غیر محدود ہے۔ اس نے عیسیٰ مسیح تک کو مارڈالا اور مرزائیوں کو زندہ کردیا۔ یعنی جو لوگ مجھ پر ایمان لائے ان کو طاعون نہ مار سکا۔ ہم کو قانون قدرت کا عطیہ عطا کیا گیا ہے۔ نہ کہ اس کی تمام جزئیات کا علم جن کا احاطہ کوئی انسانی طاقت نہیں کرسکتی اور جو غیر متناہی اور غیر محدود ہیں ہم اس قانون کو جزئیات پر قیاس کرکے منطبق کرتے ہیں۔ یہ ہمارا قیاس استقرائی ہے جو مفید یقین نہیں مگر حضور پیشینگوئیاں فرماتے ہیں۔ اور بڑے وثوق کے ساتھ تحریروں اور تقریروں میں بنکارتے ہیں کہ اسی طرح ہوگا اور میری پیشینگوئی غلط نہ ہوگی اور چونکہ یہ پیشینگوئیاں قانون فطرت کے خلاف ہوتی ہیں۔ لہٰذا بدقسمتی سے ایک بھی پوری نہیں ہوتی۔ ہم ٹھیٹھ اسلام کے موافق نجومیوں اور رمالوں کو مردود سمجھتے ہیں مگر نجوم اور جفر اور رمل پر حضور کا ایمان ہے کہ بروزی بیت الخلاء میں بیٹھ کر نصرت الدخل اور نصرۃ الخارج وغیرہ اشکال رمل کی لکیریں کھینچ دیں اور ان کو پیشانی کی لکیریں سمجھ لیا۔ یہ قانون قدرت کا بالکل خلاف اور اس سے صاف انحراف ہے۔ کیونکہ انسان ہرگز غیب دان نہیں ہوسکتا نہ کسی نبی اور ولی نے غیب دانی کا کبھی دعویٰ کیا اور اگر آپ اپنی ساختہ اور پرداختہ نیچر کے اقتضاء سے یہ کہیں کہ میں فرمائشی رسول ہوں اور قرآن میں وارد ہوا ہے ’’لا یظہر علی غیبہ احدا الا من ارتضیٰ من رسول‘‘ تو یہ فعل جناب باری کا ہوا۔ پس اسی پر معجزات انبیاء علیہ السلام کو قیاس فرمالیجئے۔ جس میں احیاء اموات بھی شامل ہے اور ہم اوپر گزارش کر چکے ہیں کہ تمام معجزات انبیاء درحقیقت معجزات قدرت ہیں۔ اﷲ سلامت رکھے حضور کی ذات بھی قابل نمائش مغتنمات سے ہے کہ انبیاء کے جن معجزات کو قانون فطرت کے خلاف بتایا ان کو اپنی بروزی اکرنیشن کی سٹیج پر نمایاں کیا۔ اس صورت میں آپ خاتم الخلفاء کیا معنی خاتم الانبیاء بلکہ افضل الرسل ٹھہرے۔ انبیاء تو نقض قانون قدرت کے مرتکب نہ ہوئے اور حضور ہوئے۔ اب ہم بجائے اس کے کہ آیہ ’’ہذا شئی عجاب فی البداہۃ‘‘ پڑھیں مناسب ہے کہ لاحول ولاقوۃ الا باﷲ پڑھیں۔ ہم لوگوں سے آپ نے قانون قدرت، قانون قدرت رٹناہی سیکھ لیا ہے۔ قصور معاف۔ حضور کو تو نہ قانون کا علم ہے نہ قدرت کا۔ نہ اس لفظ کی ترکیب اضافی کا۔ ہاں یا تو عیسیٰ مسیح علیہ السلام کے مرنے کا علم ہے یا طاعون کے آنے کا۔ جس کی نسبت آپ فرماتے ہیں کہ آسمانی