احتساب قادیانیت جلد نمبر 58 |
|
ہو۔‘‘ (ملفوظات ج۷ ص۹) واہ کیا کہنا ہے۔ اس دوپٹی تقریر پر قربان جائیے جو بروزی حکمت عملی سے لبریز ہے۔ اس کا یہ مطلب ہوا کہ جن لوگوں نے مجھے جیساکہ پہچاننے کاحق ہے نہیں پہچانا یعنی جو لوگ مجھ پر ایمان نہیں لائے وہی طعمۂ طاعون ہوئے۔ اس کی دو شقیں ہیں۔ اول درجہ پر وہ لوگ ہیں جو جانتے ہی نہیں کہ مرزا قادیانی کس کھیت کی دساورہیں نہ ان کو خبر ہے کہ قادیان ملک پنجاب میں کس نبی اور مسیح نے بروز اور خروج کیا ہے۔ دوسرے درجہ پر وہ مرزائی ہیں جنہوں نے بظاہر بیعت کی مگر جیسا کہ پہچاننے کا حق ہے۔ مرزا قادیانی کو نہیں پہچانا۔ اس کی دو صورتیں ہیں۔ یا تو وہ نپٹ اندھے (جاہل اور سادہ لوح) تھے کہ نبی اور غیر نبی میں تمیز نہ کرسکتے تھے اور دوسروں کی دیکھا دیکھی منڈ گئے تھے۔ وہ درحقیقت سر میں دماغ، دماغ میں حس اور ادراک، سینے میں دل اور دل میں کانشنس نہ رکھتے تھے اور یقین کیا جاتا ہے کہ خوش قسمتی سے ایسے ہی مریدوں کی بھیڑ بھاڑ نے مرزا قادیانی کا رجسٹر معمور کررکھا ہے اور بڑی بات ہے کہ انہوں نے کسی چندے میں جھنجھی کوڑی تک نہ دی ہوگی۔ گویا قارون کے سگوں میں سے تھے۔ خوب ہوا کہ طاعون ایسے لئیموں، گھامڑوں، عطائیوں کا سلفہ کرگیا کیونکہ وہ کسی مرض کی دارو نہ تھے۔ یا خود غرض تھے جو محض پیٹ کی خاطر مرزائی بنے تھے اور خلوص عقیدت نہ رکھتے تھے۔ ایسے لوگ دراصل منافق تھے اچھاہواکہ طاعون نے ان کو بھی دوسرے بھائیوں میں ملا دیا خس کم جہان پاک۔ مرزا قادیانی کا مطلب یہ ہے کہ طاعون سے جس قدر مرزائی مرے وہ حقیقی مرزائی نہ تھے اورجس قدر بچ رہے خواہ وہ خود غرض اور منافق ہی کیوں نہ ہوں سچے راسخ الاعتقاد مرزائی ہیں۔ تو گویا طاعون کچے اور جھوٹے مریدوں کو چٹ کرنے آیاتھا کیونکہ مرزا قادیانی نے یہ قید لگائی ہے کہ مجھے انہوں نے ایسا نہیں پہچانا جوشناخت کا حق ہے۔ اب رہے وہ لوگ جو مرزا قادیانی سے آشنا ہی نہیں نہ ان کے نام تک سے واقف ہیں۔ وہ خارج اور مطلق العنان رہے نہ طاعون ان کے لئے آیا۔ طاعون تو ڈائن بن کر پیاروں ہی کا صفایا کرنے آیا ہے اور یہ چونکہ یہ جاہل، خود غرض، منافق تھے لہٰذا سب جہنمی ہوئے ’’ان المنافقین فی الدرک الاسفل من النار‘‘ لوصاحبو مرزائی بنو اور یہ شعر پڑھتے ہوئے سیدھے جہنم کی راہ لو ؎ تو دوست کسی کا بھی ستم گر نہ ہوا تھا جو ظلم ہے ہم پر وہ کسی پر نہ ہوا تھا