احتساب قادیانیت جلد نمبر 58 |
|
ہم نے کہا یہ عطف نہیں بلکہ وقف کے بعد ایک کلام مستانف ہے ورنہ لازم آئے گا کہ جیسا علم خدائے تعالیٰ کا ہے۔ ویسا ہی راسخون فی العلم کا ہے۔ یہ شرک فی صفات اﷲ ہے جو کسی طرح جائز نہیں۔ قرینہ صاف بتا رہا ہے کہ متشابہات کی تاویل خدا کے سوا کوئی نہیں جانتا اور راسخون فی العلم یہ کہتے ہیں کہ جو کچھ خدا کی طرف سے ہے ہم اس پر ایمان رکھتے ہیں۔ ہم تاویل کے مجاز نہیں۔ اگر عطف مانا جائے گا تو یہ کلام مستانف پچھلے کلام کے خلاف پڑے گا۔ عیسیٰ مسیح کی نسبت رفعہ اﷲ بھی متشابہات سے ہے۔ کیا معنی کہ یہ فعل الٰہی ہے ہم کو اس بات کا علم نہیں دیا گیا کہ عیسیٰ کیونکر زندہ اٹھائے گئے اور اب تک کیونکر زندہ ہیں۔ یہود نے ان کو قتل بھی نہیں کیا۔ صلیب پر بھی نہیں کھینچا مگر کیا بندوں کو اس کا علم ہوسکتا ہے کہ خدائے تعالیٰ نے ان کو کیونکر محفوظ رکھا مرزا قادیانی اپنے مطلب کے موافق بات بات میں آیات کی تاویل کرتے ہیں مگر جو الہام ان پر آسمانی باپ کی طرف سے ہوتا ہے۔ اس کی تاویل نہیں کرسکتے۔ گویا آپ گونگوں کی محفل کے صدر نشین ہیں۔ یوں کیوں نہیں کہتے کہ آسمانی باپ مجھ پر بے معنی الہام کرتا ہے۔ مصیبت تو یہ ہے کہ کلام بے معنی یا بامعنی کی تمیز نہ تو مسخرے آسمانی باپ کو ہے نہ اس کے اکلوتے لے پالک کو جب کوئی کلام مجدد السنہ مشرقیہ کی ٹکسال میں آتا ہے۔ تب معلوم ہوتا ہے کہ کھرا ہے یا کھوٹا۔ بے معنی ہے یا با معنی۔ اب سنئے ’’انت منی بمنزلۃ عرشی‘‘ (تذکرہ ص۵۲۶، طبع سوم) بالکل بے معنی ہے عرش تو مکان کو کہتے ہیں جو رہنے، سہنے، بیٹھنے، اٹھنے کے لئے ہوتا ہے کیا مرزا قادیانی کوئی کوٹھڑی یا کوئی جھونپڑی ہیں جن میں خدائے تعالیٰ رہتا ہے اور اگر یہ مراد ہے کہ جیسا میرے نزدیک عرش کا مرتبہ بلند ہے۔ ویسا ہی مرزا کا مرتبہ بلند ہے تو عرض یہ ہے کہ خدا کے نزدیک کسی کا مرتبہ بلند نہیں اس کے نزدیک جھونپڑا اور عرش دونوں برابر ہیں کیونکہ بلندی اور پستی محض اعتبارات واضافات ہیں۔ یعنی ایک شے بہ نسبت دوسری کے بلند اور پست ہے۔ تحت الثریٰ سے حسب مدارج طبقات زمین بلند۔ زمین سے جھونپڑی بلند۔ جونپڑی سے حویلی بلند۔ حویلی سے ایوان بلند۔ ایوان سے قلعہ بلند۔ قلعہ سے آسمان بلند علی ہذا۔ مگر خدائے تعالیٰ کے نزدیک سب ہموار ہیں۔ پس لے پالک کی کوئی علوپائیگی اور بلند مرتبہ نہ نکلی۔ ہاں اگر آسمانی باپ یوں الہام کرتا کہ انت منی بمنزلۃ حمار الدجال تو یہ الہام ’’کمثل الحمار یحمل اسفارا الآیہ‘‘ کے مطابق ہوجاتا ہم نے بارہا متنبہ کیا کہ جب تک کوئی الہام بغرض اصلاح ومنظوری مجدد السنہ مشرقیہ کے حضور نہ بھیج لو ہرگز منہ سے نہ نکالو۔ کیونکہ سچے اور جھوٹے بے معنی اور بامعنی الہام کی پرکھ مجدد ہی کو ہے۔