احتساب قادیانیت جلد نمبر 58 |
|
وجود میں مجددیت، نبوت، رسالت، بروزیت، مسیحیت، مہدویت، امام الزمانی خدا کی تبنیت وغیرہ صفتیں مجتمع ہوں وہ خدا نہیں تو کیا ہے؟ یعنی مجدد ہوکر محمدa کا بروزاور مسیح موعود ہوکر جری اﷲ فی حلل الانبیاء اور مختلف تشخصات اور مختلف شریعتوں کا معجون مرکب، گو ایسا برزخ انسانی فطرت کے خلاف ہو مگر خدائی فطرت کے خلاف نہیں۔ خدا میں تو سب طرح کی طاقت ہے۔ وہ ان نیچرل اوصاف کا مجموعہ ہے جوبات انسانوں کے نزدیک محال ہے وہ خدا کے نزدیک ممکن۔ بلکہ واقع ہے۔ پس اک حمقاء کے پٹیلنے کو بظاہر تو مامور ہیں مگر درحقیقت خدا ہیں۔ کیا مرزا اور مرزائی اب بھی قائلان وحدۃ الوجود کو گالیاں دیں گے اور ان کے اس شعر پر ایمان نہ لائیں گے۔ ہر لحظہ بشکل آن بت عیار برآمد دل بردو نہان شد ہر دم بلباس دگر آن یار برآمد گہ پیروجوان شد عیسائیوں کو عیسیٰ مسیح کے آنے سے پہلے ایک خدا کے آنے کی اور مسلمانوں کو ایک انسان کامل محمدa کے آنے کی ضرورت تھی۔ دونوں ضرورتیں انجیل مقدس اور قرآن مجید نے پوری کردیں۔ ہاں مرزائیوں کی ضرورت کی جائے ضرور معمور نہ ہوئی تھی کیونکہ انہیں ایک برازی نہیں بروزی خدا کے آنے کی ضرورت تھی۔ اب انیسویں صدی میں وہ بھی پوری ہوئی۔ پس مرزا قادیانی کو اسی کی ضد ہے کیا معنی۔ جب کوئی یہ کہے گاکہ آنحضرتa خاتم النّبیین ہیں تو مرزا کی شلوار میں پتنگے چھوٹ جائیں گے کیونکہ خاتم النّبیین وہ خود ہیں، اور جب مرزا قادیانی یہ کہیں گے کہ عیسیٰ مسیح کو عیسائی خدا سمجھتے ہیں تو مارے حسرت کے پیٹوںمیں انگارے دوڑنے لگیں گے کہ مجھے مسیح ابن ﷲ (لے پالک خدا) کیوں نہیں مانتے جبکہ میں مسیح پر ہر طرح ترجیح رکھتا ہوں۔ پس مرزا قادیانی نے جو مختلف لقب لئے ہیں تو اس سے درحقیقت ان کی مراد یہ ہے کہ میں خدا ہوں پھر بھی عیسائیوں پر اعتراض کہ انہیں ایک خدا کے آنے کی ضرورت تھی۔ رنگون میں ایک مدراسی نے اپنی بیوی کو غصہ کی حالت میں طلاق دے دی جب غصہ فرو ہوا تو ایک مولوی سے چارہ جوئی کی، مولوی نے روپیہ طلب کیا اور کہا کہ تیری طلاق ہرگز جائز نہیں اور نکاح نہیں ٹوٹا۔ طلاق دینے والا خوشی خوشی اپنے گھر چلا گیا تو ایک شخص نے مولوی سے پوچھا کہ آپ کا یہ فتویٰ کیونکر جائز ہوسکتا ہے۔ مولوی نے کہا کہ طلاق دینے والاجاہل کندۂ ناتراش ہے جو (ط) اور (ت) سے واقف نہیں پس اس نے ضرور (ت) سے طلاق دی ہوگی نہ کہ (ط) سے۔