حیاۃ الصحابہ اردو جلد 3 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
میں آپ کی مدد کے لیے چار ہزارآدمی بھیج رہاہوں۔ ہر ہزار پر ایک ایسا آدمی امیر مقرر کیا ہے جو ہزار کے برابر ہے۔ وہ چار حضرات یہ ہیں: حضرت زبیر بن عوام، حضرت مقداد بن اسود بن عمرو، حضرت عبادہ بن صامت اور حضرت مَسْلَمہ بن مُخلَّد ؓ۔ اور آپ کو معلوم ہوناچاہیے کہ آپ کے ساتھ بارہ ہزار آدمی ہیں اور بارہ ہزار کا لشکر تعداد کی کمی کی وجہ سے مغلوب نہیں ہوسکتا (کسی گناہ کی وجہ سے ہوسکتا ہے)۔1 حضرت عیاض اَشعری کہتے ہیں: میں جنگِ یرموک میں شریک تھا۔ اس جنگ میں مسلمانوں کے لشکر کے پانچ امیر تھے۔ حضرت ابوعبیدہ ، حضرت یزید بن ابی سفیان، حضرت شرحبیل بن حسنہ ، حضرت خالد بن ولید اور حضرت عیاضؓ۔ یہ حضرت عیاض دوسرے صاحب ہیں اس حدیث کے راوی نہیں ہیں۔ حضرت عمر ؓ نے فرمایا: جب جنگ ہو تو آپ لوگوں کے امیر حضرت ابوعبیدہؓہواکریں گے۔ پھر ہم نے حضرت عمر ؓ کو مدد طلب کرنے کے لیے خط میں یہ لکھا کہ موت بڑے جوش وخروش سے ہماری طرف بڑھ رہی ہے۔ انھوں نے ہمیں جواب میں یہ لکھا کہ مدد طلب کرنے کے لیے آپ لوگوں کا خط میرے پاس آیا۔ میں آپ لوگوں کو ایسی ذات بتاتاہوں جس کی مدد بڑی زور دار ہے اور جس کا لشکر ہر جگہ موجود ہے اور وہ اللہ تعالیٰ کی ذات ہے، لہٰذا اسی سے مدد مانگو، کیوںکہ حضرت محمد ﷺ کی جنگِ بدر میں مدد ہوئی حالاںکہ ان کی تعداد تم سے کم تھی۔2 احمد کی روایت میں یہ بھی ہے کہ جب آپ لوگوں کو میرا یہ خط ملے تو آپ لوگ ان سے جنگ کریں اور مجھ سے دوبارہ مدد طلب نہ کریں۔ راوی کہتے ہیں: ہم نے ان سے جنگ کی اور انھیں خوب قتل کیا اور انھیں چار فرسخ یعنی بارہ میل تک شکست دی اور ہمیں بہت سامالِ غنیمت ملا۔ پھر ہم نے مشورہ کیا تو حضرت عیاضؓنے ہمیں مشورہ دیا کہ ہر مسلمان کے چھڑوانے کے بدلے دس کافر دیں۔ راوی کہتے ہیں: حضرت ابوعبیدہؓ نے فرمایا: گھوڑا دوڑانے میں کون مجھ سے بازی لگاتاہے؟ اس پر ایک نوجوان نے کہا: اگر آپ خفانہ ہوں تو میں۔ چناںچہ یہ نوجوان دوڑ میں حضرت ابو عبیدہ ؓ سے آگے نکل گیا۔ میں نے دیکھا کہ حضرت ابوعبیدہ بغیر زین کے گھوڑے پر سوار ہیں اور اس نوجوان کے پیچھے دوڑ رہے ہیں اور ان کے بالوں کی دونوں مینڈھیاں زور زور سے ہل رہی ہیں۔1 حضرت محمد، حضرت طلحہ اور حضرت زیاد ؓ اپنی اپنی سند سے بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمر ؓ نے ایک نوجوان حضرت سعدؓکے ساتھ مستقل لگارکھا تھا جو کہ قاریوں میں سے تھا۔ جب حضرت سعد ؓ نماز ظہر پڑھاچکے تو اس نوجوان کو حکم دیا کہ وہ سورۂ جہاد یعنی سورۂ انفال پڑھے اور تمام مسلمان یہ سورت سیکھے ہوئے تھے۔ چناںچہ لشکر کا جو حصہ قریب تھا اس نوجوان نے ان کے سامنے وہ سورۂ جہاد پڑھی، پھر وہ سورت لشکر کے ہر دستے میں پڑھی گئی جس سے تمام لوگوں کے دلوں میں ذوق شوق بڑھ گیا اور سب نے اس کے پڑھتے ہی سکون محسوس کیا۔ 2 حضرت مسعود بن خراش کی روایت میں یہ ہے کہ لوگ سورہ ٔجہاد سیکھے ہوئے تھے، اس لیے حضرت سعد ؓ نے لوگوں کو حکم دیا کہ وہ ایک دوسرے کے سامنے اسے پڑھیں۔ 3 حضرت ابراہیم بن حارث تیمی ؓ فرماتے ہیں: حضورﷺ نے ہمیں ایک لشکر میں بھیجا اور ہمیں حکم دیا کہ ہم صبح اور شام {اَفَحَسِبْتُمْ اَنَّمَا