حیاۃ الصحابہ اردو جلد 3 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
ساتھ جتنے مشکیزے اور برتن تھے وہ سب بھر لیے اور اتنے زیادہ بھرے کہ بالکل پھٹنے والے ہوگئے تھے۔ پھر حضورﷺ نے فرمایا: جو کچھ تم لوگوں کے پاس ہے وہ لے آؤ۔ چناںچہ ہم نے روٹی کے ٹکڑے اور کھجوریں جمع کرکے اس عورت کو دے دیں۔ پھر وہ عورت اپنے گھروالوں کے پاس گئی اور انھیں بتایا کہ میں یا تو سب سے بڑے جادوگر سے مل کر آئی ہوں یا پھر وہ سچ مچ نبی ہیں جیسے کہ ان کے ساتھی کہہ رہے تھے۔ چناںچہ اس عورت کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے اس ڈیرے والوں کو ہدایت عطافرمائی، اور وہ عورت بھی مسلمان ہوگئی اور ڈیرے والے بھی مسلمان ہوگئے۔ اس حدیث کو بخاری اور مسلم دونوں نے ذکرکیاہے۔ ان دونوں کی دوسری حدیث میں یہ ہے کہ حضورﷺ نے اس عورت سے فرمایا: یہ کھانے کا سامان اپنے ساتھ اپنے بچوں کے لیے لے جاؤ اور تمھیں معلوم ہوناچاہیے کہ ہم نے تمہارے پانی میں سے کچھ نہیں لیا، ہمیں تو یہ ساراپانی اللہ نے اپنے غیبی خزانے سے پلایا ہے۔1 حضرت زیاد بن حارث صدائی ؓ فرماتے ہیں: میں حضورﷺ کے ساتھ ایک سفر میں تھا، آپ نے پوچھا: کیا تمہارے پاس پانی ہے؟ میں نے کہا: ہے لیکن تھوڑا ہے، آپ کو کافی نہیں ہوگا۔ حضورﷺ نے فرمایا: کسی برتن میں ڈال کر میرے پاس لے آئو۔ میں آپ کی خدمت میں لے آیا۔ آپ نے اپنا دستِ مبارک اس میں رکھا تو میں نے دیکھا کہ حضورﷺ کی ہر دو انگلیوں کے درمیان میں سے پانی کا چشمہ پھوٹ رہاہے۔ حضورﷺ نے فرمایا: اگر مجھے اپنے ربّ سے حیا نہ آتی تو ہم یوں ہی پانی پیتے پلاتے رہتے (کیوںکہ یوں جسم سے پانی نکلنے میں شانِ ربوبیت کا شائبہ ہے، اس لیے اس معجزہ کا تھوڑی دیر کے لئے ہوناہی مناسب ہے)۔ جاؤ اور جاکر میرے صحابہ میں اعلان کردو کہ جو بھی پانی لینا چاہتا ہے، وہ جتنا چاہے آکر چلّو بھر بھر کر لے لے۔ حضرت زیاد ؓ کہتے ہیں: میری قوم کا ایک وفد مسلمان ہوکر فرماں بردار بن کر حضور ﷺ کی خدمت میں آیا۔ وفد کے ایک آدمی نے عرض کیا: یا رسول اللہ! ہمارا ایک کنواں ہے۔ سردیوں میں تو وہ ہمیں کافی ہوجاتاہے اس لیے سردیوں میں تو ہم اس کنوئیں کے پاس جمع ہوجاتے ہیں اور گرمیوں میں اس کا پانی کم ہوجاتاہے تو پھر ہم اپنے اردگردکے چشموں پر بکھر جاتے ہیں، لیکن اب ہم بکھر نہیں سکتے کیوںکہ ہمارے اردگردکے تمام لوگ (اسلام لانے کی وجہ سے) ہمارے دشمن ہوگئے ہیں۔ آپ اللہ سے دعا کریں کہ اس کا پانی ہمیں گرمیوں میں بھی کافی ہوجایاکرے۔ حضور ﷺ نے سات کنکریاں منگوائیں اور ان کو اپنے ہاتھ پر الگ الگ رکھ کر دعاکی،پھر فرمایا:جب تم لوگ کنوئیں کے پاس پہنچو تو کنکریاں ایک ایک کر کے اس میں ڈال دو اور ان پر اللہ کا نام لیتے رہو۔ چناںچہ واپس جاکر انھوں نے ایسا ہی کیا تو اللہ نے اس کنوئیں کا پانی اتنا زیادہ کردیا کہ پھر انھیں اس کنوئیں کی گہرائی کبھی نظر نہیں آئی۔ 1 حضرت ابوعون کہتے ہیں: جب حضرت حسین بن علی ؓ مکہ کے ارادے سے مدینہ سے نکلے تو وہ ابنِ مطیع کے پاس سے گزرے جو اپنا کنواں کھود رہے تھے۔ آگے اور حدیث ذکر کی ہے جس میں یہ بھی ہے کہ ابنِ مطیع نے ان سے کہا: میں نے اپنے اس کنوئیں کو اس