حیاۃ الصحابہ اردو جلد 3 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
ہوجائو۔ پھر اس لشکر کا قاصد آیا حضرت عمر ؓ نے اس سے حالات پوچھے، اس نے کہا: اے امیرالمؤمنین! ہمیں شکست ہورہی تھی کہ اتنے میں ہم نے ایک بلند آواز تین مرتبہ سنی: اے ساریہ! پہاڑ کی طرف ہوجائو۔ چناںچہ ہم نے اپنی پشتیں پہاڑ کی طرف کردیں جس پر اللہ نے کفار کو شکست دے دی۔ پھر لوگوں نے حضرت عمر سے کہا:آپ ہی نے تو بلند آواز سے یہ کہاتھا۔ 2 حضرت ابنِ عمر ؓ فرماتے ہیں: حضرت عمر ؓ جمعہ کے دن خطبہ دے رہے تھے تو خطبہ میں کہنے لگے:اے ساریہ! پہاڑ کی طرف ہوجائو اور جس نے بھیڑیے کو بکریوں کا چرواہا بنایا اس نے بکریوں پر ظلم کیا۔ لوگ ایک دوسرے کو حیران ہوکر دیکھنے لگے۔ حضرت علی ؓ نے ان سے فرمایا: پریشان مت ہو۔ حضرت عمرخود بتائیں گے کہ انھوں نے یہ کیوں کہا ہے؟ جب حضرت عمرنماز سے فارغ ہوئے تو لوگوں نے ان سے پوچھا۔ انھوں نے فرمایا: میرے دل میں ایک دَم یہ خیال آیا کہ مشرکوں نے ہمارے بھائیوں کو شکست دے دی ہے اور وہ ایک پہاڑ کے پاس سے گزر رہے ہیں۔ یہ ہمارے بھائی اگر پہاڑ کی طرف مڑجائیں تو ان کو صرف ایک طرف سے ہی لڑناپڑے گا (اور اس طرح ان کو فتح ہوجائے گی) اور اگر یہ لوگ پہاڑ سے آگے نکل گئے تو پھر (ان کو ہر طرف سے لڑناپڑے گا اور) یہ ہلاک ہوجائیں گے، بس اس پر میری زبان سے وہ کلمات نکل گئے جو آپ لوگوں نے سنے ہیں۔پھرایک مہینے کے بعد (اس لشکر کی طرف سے فتح کی) خوش خبری دینے والا آیا اور اس نے بتایا کہ ہم لوگوں نے اس دن حضرت عمرؓ کی آوازسنی تھی اور آواز سن کر ہم لوگ پہاڑ کی طرف ہوگئے تھے جس سے اللہ نے ہمیں فتح نصیب فرمادی۔ 1 خطیب اور ابنِ عساکر کی روایت میں یہ ہے کہ لوگوں نے حضرت علی ؓ سے کہا:کیا آپ نے حضرت عمر ؓ کو منبر پر خطبہ کے دوران یا ساریہ! کہتے ہوئے نہیں سنا؟ حضرت علی نے فرمایا: تمہارا بھلا ہو! حضرت عمرکو کچھ نہ کہو، وہ جو بھی کام کرتے ہیں اس کی کوئی نہ کوئی وجہ ضرور ہوتی ہے۔ ابو نعیم کی روایت میں یہ ہے کہ حضرت عمر ؓ نے فرمایا: میرے دل میں یہ خیال آیا کہ دشمن نے حضرت ساریہ ؓ کو پہاڑ کی پناہ لینے پر مجبور کردیاہے، تو اس خیال سے میں نے یہ کہہ دیا کہ شاید اللہ کا کوئی بندہ میری آواز حضرت ساریہ ؓ تک پہنچادے یعنی کوئی فرشتہ یا مسلمان جنّ پہنچادے۔ 1 ابو نعیم کی دوسری روایت میں یہ ہے کہ پھر حضرت عبدالرحمن بن عوف ؓ حضرت عمر ؓ کے پاس گئے۔ حضرت عمرکو حضرت عبدالرحمن پر مکمل اعتماد اور اطمینان تھا۔ حضرت عبدالرحمن نے کہا: مجھے آپ کی وجہ سے لوگوں کو برابھلا کہناپڑتاہے،اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ آپ ہمیشہ ایسا کام کردیتے ہیں جس کی بظاہر کوئی وجہ نظر نہیں آتی اور یوں لوگوں کو باتیں کرنے کا موقع مل جاتاہے۔ آپ نے یہ کیا کیا کہ خطبہ دیتے دیتے آپ ایک دم’’ اے ساریہ! پہاڑ کی طرف ہوجائو ‘‘ زور سے کہنے لگے۔ حضرت عمر ؓ نے کہا:اللہ کی قسم! میں اپنے آپ کو قابو میں نہ رکھ سکا۔میں نے دیکھا کہ حضرت ساریہ کالشکر ایک پہاڑ کے پاس لڑ رہاہے اور ان پرآگے سے