حیاۃ الصحابہ اردو جلد 3 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
حضرت زَاذان کہتے ہیں: ایک آدمی نے حضرت علی ؓ سے ایک حدیث بیان کی۔ حضرت علی ؓ نے کہا: میرے خیال میں تم مجھ سے جھوٹ بول رہے ہو۔ اس نے کہا: نہیں، میں نے جھوٹ نہیں بولا۔ حضرت علی نے کہا: اگر تم نے جھوٹ بولا ہے تو میں تمہارے لیے بددعا کروں گا۔ اس نے کہا: کردیں۔ حضرت علی نے بددعا کی وہ اسی مجلس میں اندھا ہوگیا۔ 5 حضرت ابنِ عمرؓ فرماتے ہیں: ارویٰ بنت اویس عورت نے کسی چیز کے بارے میں حضرت سعید بن زید ؓ سے جھگڑا کررکھاتھا۔ مروان نے کچھ لوگوں کو حضرت سعید ؓ کے پاس بھیجا تاکہ وہ ارویٰ کے بارے میں ان سے گفتگو کریں۔ حضرت سعید نے فرمایا: یہ لوگ سمجھتے ہیں کہ میں اس عورت پر ظلم کررہا ہوں، حالاںکہ میں نے حضورﷺ کو فرماتے ہوئے سنا کہ جو ظلم کرکے کسی سے ایک بالشت زمین لے گا تو قیامت کے دن ساتوں زمینوں میں سے ایک بالشت زمین طوق بنا کر اس کے گلے میں ڈال دی جائے گی۔ اے اللہ! اگر ارویٰ جھوٹی ہے تو اسے موت نہ دے جب تک کہ وہ اندھی نہ ہوجائے اور اس کی قبر اس کے کنوئیں میںبنادے۔ اللہ کی قسم! اسے موت تب ہی آئی جب اس کی بینائی جاتی رہی۔ ایک دفعہ وہ اپنے گھر میں بڑی احتیاط سے چل رہی تھی کہ وہ اپنے کنوئیں میں گر گئی اور وہ کنواں ہی اس کی قبر بن گیا۔1 حضرت ابوبکر بن محمد بن عمرو بن حزم کہتے ہیں: ارویٰ نامی عورت نے حضرت سعید بن زید ؓ کے ظلم کی جھوٹی شکایت کرکے مروان سے مدد چاہی۔ حضرت سعید ؓ نے یہ بددعا کی: اے اللہ! یہ ارویٰ دعوی کررہی ہے کہ میں نے اس پر ظلم کیا ہے۔ اگر یہ جھوٹی ہے تو تُو اسے اندھا کردے اور اسے اس کے کنوئیں میں گرادے اور میرے حق میں ایسی روشن دلیل ظاہر کر جس سے سارے مسلمانوں کو صاف نظر آجائے کہ میں نے اس پر ظلم نہیں کیا۔ اسی دوران وادیٔ عقیق میں ایسازبردست سیلاب آیا کہ اس سے پہلے کبھی ایسا سیلاب نہیں آیاتھا۔ سیلاب کی وجہ سے وہ حد صاف واضح ہوگئی جس میں حضرت سعید اور ارویٰ کا اختلاف تھا، اور اس میں حضرت سعید بالکل سچے نکلے۔ پھر ایک مہینہ نہیں گزراتھا کہ ارویٰ اندھی ہوگئی اور ایک دفعہ وہ اپنی اسی زمین کا چکر لگارہی تھی کہ اچانک اپنے کنوئیں میں گرگئی۔ اور جب ہم چھوٹے بچے تھے تو سنا کرتے تھے کہ لوگ ایک دوسرے کو کہا کرتے تھے: اللہ تجھے ایسے اندھاکرے جیسے ارویٰ کو اندھا کیا۔ ہم یہی سمجھتے تھے کہ ارویٰ سے مراد جنگلی پہاڑی بکریاں ہیں (کیوںکہ عربی زبان میں ارویٰ کا یہی ترجمہ ہے) یہ تو بعد میں ہمیں اس قصہ کا پتا چلا، اور اس سے معلوم ہوا کہ ارویٰ سے مراد تو ایک عورت ہے جسے حضرت سعید بن زید ؓ کی بددعا لگی تھی اور چوںکہ اللہ نے ان کی بددعا پوری کردی تھی اس لیے یہ بات کہتے تھے۔ 2 حضرت ابورجاء عطاردی نے کہا: حضرت علی ؓ کو اور حضورﷺ کے گھرانے میں سے کسی کو برا بھلا نہ کہو، کیوںکہ ہمارا ایک پڑوسی بنو ہجیم کا تھا۔ اس نے گستاخی کی اور یوں کہا: کیا تم لوگوں نے اس فاسق حسین بن علی کو نہیں دیکھا؟ اللہ انھیں قتل کرے! یہ گستاخی کرتے ہی اللہ نے اس کی دونوں آنکھوں میں دو سفید نقطے پیدا کردیے اور اس کی بینائی کو ختم کردیا۔ 1