حیاۃ الصحابہ اردو جلد 3 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
دوسرے اس آدمی پر جو غفلت میں پڑا ہوا ہے اور اس سے غفلت نہیں برتی جارہی، یعنی فرشتے اس کا ہر براعمل لکھ رہے ہیں اور اسے ہر عمل کا بدلہ ملے گا۔ تیسرے منہ بھر کر ہنسنے والے پر جسے معلوم نہیں ہے کہ اس نے اپنے ربّ کو خوش کررکھاہے یا ناراض۔ اور مجھے تین چیزوں سے رونا آتاہے: پہلی چیز محبوب دوستوں یعنی حضرت محمد ﷺ اور ان کی جماعت کی جدائی، دوسری موت کی سختی کے وقت آخرت کے نظرآنے والے مناظر کی ہولناکی، تیسری اللہ ربُّ العالمین کے سامنے کھڑاہونا جب کہ مجھے یہ معلوم نہیں ہوگا کہ میں جہنم میں جائوں گا یا جنت میں۔ 1 حضرت سلمان ؓ نے فرمایا: جب اللہ تعالیٰ کسی بندے کے ساتھ برائی اور ہلاکت کا ارادہ فرماتے ہیں تو اس سے حیانکال لیتے ہیں۔ جس کا نتیجہ یہ ہوتاہے کہ تم دیکھو گے کہ لوگ بھی اس سے بغض رکھتے ہیں اور وہ بھی لوگوں سے بغض رکھتاہے۔ جب وہ ایساہوجاتاہے تو پھر اس سے رحم کرنے اور ترس کھانے کی صفت نکال دی جاتی ہے جس کا نتیجہ یہ ہوتاہے کہ تم دیکھو گے کہ وہ بداخلاق، اکھڑطبیعت اور سخت دل ہوگیاہے۔ جب وہ ایساہوجاتاہے تو پھر اس سے امانت داری کی صفت چھین لی جاتی ہے جس کانتیجہ یہ ہوتاہے کہ تم دیکھو گے وہ لوگوں سے خیانت کرتاہے اور لوگ بھی اس سے خیانت کرتے ہیں۔ جب وہ ایسا ہوجاتاہے تو پھر اسلام کا پٹہ اس کی گردن سے اُتارلیاجاتاہے، اور پھر اللہ اور اس کی مخلوق بھی اس پر لعنت کرتی ہے اور وہ بھی دوسروں پر لعنت کرتاہے۔ 2 حضرت سلمان ؓ نے فرمایا: اس دنیا میں مؤمن کی مثال اس بیماری جیسی ہے جس کا طبیب اور معالج اس کے ساتھ ہو جواس کی بیماری اور اس کے علاج دونوں کو جانتاہو۔ جب اس کا دل کسی ایسی چیز کو چاہتاہے جس میں اس کی صحت کا نقصان ہو تو وہ معالج اسے اس سے منع کردیتاہے اور کہہ دیتاہے:اس کے قریب بھی نہ جائو، کیوںکہ اگر تم نے اسے کھایا تو یہ تمھیں ہلاک کردے گی۔ اسی طرح وہ معالج اسے نقصان دہ چیزوں سے روکتارہتاہے یہاں تک کہ وہ بالکل تندرست ہوجاتاہے اور اس کی بیماری ختم ہوجاتی ہے۔ اسی طرح مؤمن کا دل بہت سی ایسی دنیاوی چیزوں کو چاہتارہتاہے جو دوسروں کو اس سے زیادہ دی گئی ہیں، لیکن اللہ تعالیٰ موت تک اسے ان سے منع کرتے رہتے ہیں اور ان چیزوں کو اس سے دور کرتے رہتے ہیں اور مرنے کے بعد اسے جنت میں داخل کردیتے ہیں۔1 حضرت یحییٰ بن سعیدکہتے ہیں: حضرت ابوالدرداء ؓ (دِمَشق میں رہتے تھے، انھوں) نے حضرت سلمان فارسی ؓکو خط میں لکھا کہ آپ (دِمَشق کی) پاک سرزمین میں تشریف لے آئیں۔ حضرت سلمان نے انھیں جواب میں لکھا کہ زمین کسی کو پاک نہیں بناتی انسان تو اپنے عمل سے پاک اور مُقَدَّس بنتاہے۔ اور مجھے یہ بات پہنچی ہے کہ آپ کو وہاں طبیب (یعنی قاضی) بنادیاگیاہے۔ اگر آپ کے ذریعہ سے بیماروں کو صحت مل رہی ہے، یعنی آپ عدل وانصاف والے فیصلے کررہے ہیں تو پھر تو بہت اچھی بات ہے۔ شاباش ہو آپ کو! اور اگر آپ کو طب نہیں آتی اور زبردستی حکیم وطبیب بنے ہوئے ہیں تو پھر آپ کسی انسان کو (غلط فیصلہ کر کے) مارڈالنے