حیاۃ الصحابہ اردو جلد 3 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
اللہ کی حمد وثنا بیان کی پھر فرمایا: اما بعد! اللہ تعالیٰ نے حضرت محمد ﷺ کو خوش خبری سنا نے والا اور ڈرانے والا بنا کر بھیجا تھا، جو اِن کی اطاعت کرتاتھا اسے جنت کی بشارت دیتے تھے اور جو نافرمانی کرتا تھا اسے جہنم سے ڈراتے تھے۔ آخراللہ تعالیٰ نے حضورﷺ کا اِتباع کرنے والوں کو تمام دین والوں پرغالب کردیا اگرچہ یہ بات مشرکوں کو بہت ناگوار گزری۔ اللہ تعالیٰ نے حضورﷺ کے لیے بہت سی رہنے کی جگہیں پسند فرمائیں اور ان میں سے مدینہ منورہ کو منتخب فرمایا، اور اسے ہجرت کا گھر اور ایمان کا گھر قرار دیا (ہرجگہ سے مسلمان ہجرت کر کے وہاں آتے رہے اور ایمان سیکھتے رہے)۔ اللہ کی قسم! جب سے حضورﷺ مدینہ تشریف لائے ہیں اس وقت سے لے کر آج تک ہر وقت فرشتے اسے ہر طرف سے گھیرے رہتے ہیں اور جب سے حضورﷺ مدینہ تشریف لائے ہیں اس وقت سے لے کر آج تک اللہ کی تلوارآپ لوگوں سے نیام میں ہے (یعنی مسلمان قتل نہیں ہورہے ہیں)۔ پھر فرمایا: اللہ تعالیٰ نے حضرت محمد ﷺ کو حق دے کر بھیجا۔ لہٰذا جسے ہدایت ملی اسے اللہ کے دینے سے ملی، اور جو گمراہ ہوا واضح اور کھلی دلیل کے آنے کے بعد گمراہ ہوا۔ پہلے زمانے میں جو بھی نبی شہید کیا گیا اس کے بدلے میں ستّر ہزار جنگجو جوان قتل کیے گئے، ان میں سے ہر ایک اس نبی کے بدلے میں قتل ہوا۔ اور جو بھی خلیفہ شہید کیا گیا اس کے بدلے میں ۳۵ ہزار جنگجو جوان قتل کیے گئے، ان میں سے ہر ایک اس خلیفہ کے بدلے میں قتل ہوا۔ لہٰذا تم جلد بازی میں کہیں ان بڑے میاں کو قتل نہ کرو۔ اللہ کی قسم! تم میں سے جو آدمی بھی انھیں قتل کرے گا وہ قیامت کے دن اللہ کے ہاں اس حال میں پیش ہوگا کہ اس کا ہاتھ کٹا ہوا اور شل ہوگا۔ اور یہ بات اچھی طرح جان لو کہ ایک باپ کا اپنے بیٹے پر جتنا حق ہوتاہے اتنا ہی ان بڑے میاں کا تمہارے اوپر ہے۔ راوی کہتے ہیں: یہ سن کر وہ سارے باغی کھڑے ہو گئے اور کہنے لگے: یہودی جھوٹے ہیں، یہودی جھوٹے ہیں (چوںکہ حضرت عبداللہ بن سلام پہلے یہودی تھے اور بعد میں مسلمان ہوئے، اس لیے بطور طعنے کے انھوں نے ایساکہا)۔ حضرت عبداللہ ؓ نے فرمایا: تم غلط کہتے ہو۔ اللہ کی قسم! یہ بات کہہ کر تم گناہ گار ہوگئے ہو۔ میں یہودی نہیں ہوں میں تو مسلمان ہوں، یہ بات اللہ اور اس کے رسول ﷺ اور سارے مؤمن جانتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے میرے بارے میں قرآن کی یہ آیت نازل فرمائی ہے: {قُلْ کَفٰی بِاللّٰہِ شَھِِیْدًام بَیْنِیْ وَبَیْنَکُمْ لا وَمَنْ عِنْدَہٗ عِلْمُ الْکِتٰبِ آیت کا نشان}1 آپ فرمادیجیے کہ میرے اور تمہارے درمیان (میری نبوت پر) اللہ تعالیٰ اور وہ شخص جس کے پاس کتاب (آسمانی) کا علم ہے کافی گواہ ہیں۔ (جس کے پاس گزشتہ آسمانی کتاب کا علم ہے اس سے مراد حضرت عبداللہ بن سلام ؓ اور ان جیسے دوسرے یہوی عُلما ہیں جو تورات کی بتائی ہوئی نشانیاں دیکھ کر مسلمان ہوگئے تھے) اور میرے بارے میں اللہ تعالیٰ نے یہ آیت بھی نازل فرمائی ہے: {قُلْ اَرَئَ یْتُمْ اِنْ کَانَ مِنْ عِنْدِ اللّٰہِ وَکَفَرْتُمْ بِہٖ وَشَھِدَ شَاھِدٌ مِّنْ بَنِی اِسْرَآئِیْلَ عَلٰی مِثْلِہٖ فَاٰمَنَ وَاسْتَکْبَرْتُمْ }2 آپ کہہ دیجیے کہ تم مجھ کو یہ بتائو کہ اگر یہ قرآن من جانب اللہ ہو اور تم اس کے منکر ہو اور بنی اسرائیل میں سے کوئی گواہ اس جیسی کتاب پر گواہی دے کر ایمان لے آوے اور تم تکبر ہی میں رہو۔