حیاۃ الصحابہ اردو جلد 3 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
حضرت انسؓ فرماتے ہیں کہ ایک دن حضرت طلحہؓ سامنے سے آئے تو دیکھا کہ حضور ﷺ کھڑے ہوئے اَصحابِ صُفّہ کو قرآن پڑھا رہے ہیں اور آپ نے بھوک کی وجہ سے پیٹ مبارک پر پتھر کا ٹکڑا باندھا ہوا ہے تاکہ کمرسیدھی ہوجائے۔1 حضرت انس ؓ فرماتے ہیں کہ ایک دن حضرت ابو موسیٰؓ اپنے گھر میں بیٹھے ہوئے تھے۔ آہستہ آہستہ بہت سے لوگ ان کے پاس جمع ہوگئے تو وہ ان کے سامنے قرآن پڑھنے لگے۔ اتنے میں ایک آدمی نے حضورﷺ کی خدمت میںآکر عرض کیا: یا رسول اﷲ! میںآپ کو حضرت ابو موسیٰؓ کی عجیب بات نہ بتاؤں؟ وہ گھر میں بیٹھے ہوئے تھے، پھر ان کے پاس لوگ جمع ہوگئے تو وہ ان کے سامنے قرآن پڑھنے لگے۔ حضورﷺ نے فرمایا:کیا تم یہ کرسکتے ہو کہ تم مجھے ایسی جگہ بٹھادو جہاں ان میں سے مجھے کوئی نہ دیکھ سکے؟ اس نے کہا:جی ہاں۔ حضور ﷺ تشریف لے گئے اور اس آدمی نے حضورﷺ کو ایسی جگہ بٹھا دیا جہاں حضورﷺ کو ان میں سے کوئی نہیں دیکھ سکتا تھااور وہاں سے حضورﷺ حضرت ابو موسیٰ ؓ کی تلاوت کو سننے لگے۔ پھر حضورﷺنے فرمایا: یہ حضرت داؤد ؑ کے لہجہ جیسی آواز میں قرآن پڑھ رہے ہیں۔2 حضرت انس بن مالکؓ فرماتے ہیں کہ حضرت اشعریؓ نے مجھے حضرت عمرؓ کے پاس بھیجا۔ حضرت عمرؓ نے مجھ سے فرمایا: اشعری بھائی کو کس حال میں چھوڑ کر آئے ہو؟ میں نے کہا: میں نے ان کو اس حال میں چھوڑا کہ وہ لوگوں کو قرآن سکھا رہے تھے۔ حضرت عمرؓ نے فرمایا: ذرا غور سے سنو! وہ بہت سمجھ دار آدمی ہیں لیکن یہ بات انھیں نہ سنانا۔ پھر فرمایا: تم نے دیہاتیوں کو کس حال میں چھوڑا؟ میں نے کہا: اشعری قبیلہ والے؟ آپ نے فرمایا: نہیں، بلکہ بصرہ والے۔ میں نے کہا: اگر یہ بات بصرہ والے سن لیں تو انھیں بہت بری لگے گی۔ حضرت عمرؓ نے فرمایا: یہ بات انھیں نہ بتانا لیکن ہیں وہ لوگ دیہاتی ہی۔ البتہ ان میں سے جسے اﷲ جہاد فی سبیل اﷲ کی توفیق دے دے(تو وہ دیہاتی نہیں رہے گا)۔3 حضرت ابورجاء عطاردی کہتے ہیں: حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ بصرہ کی اس مسجد میں ہمارے پاس بار بار تشریف لاتے اور ایک ایک حلقہ میں بیٹھتے، اور ان کا یہ منظر اب بھی میری آنکھوں کے سامنے ہے کہ انھوں نے دو سفید چادریں پہنی ہوئی ہیں اور مجھے قرآن پڑھارہے ہیں اور میں نے سورۂ{ اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِیْ خَلَقَ}ان سے ہی سیکھی تھی اور یہ سورت حضرت محمد ﷺ پر سب سے پہلے نازل ہوئی تھی۔1 حضرت علی ؓ فرماتے ہیں کہ جب حضورﷺ کا انتقال ہوگیا تو میں نے قسم کھائی کہ دو پٹھوں کے درمیان جو قرآن ہے، جب تک میں اس سارے کو جمع نہیں کرلوں گا اس وقت تک میں اپنی پیٹھ سے چادر نہیں اتاروں گا، یعنی آرام نہیں کروں گا۔ چناںچہ جب تک میں نے سارا قرآن جمع نہیں کرلیا یعنی یاد نہ کرلیا اپنی پیٹھ سے چادر نہیں اتاری، بالکل آرام نہیں کیا۔2 حضرت میمونکہتے ہیں کہ حضرت ابنِ عمرؓ نے چار سال میں سورۂ بقرہ سیکھی۔3