حیاۃ الصحابہ اردو جلد 3 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
حضرت جابرؓفرماتے ہیں کہ ایک دن ہم نے حضور ﷺکے ساتھ نماز پڑھی۔ پھر آپ ﷺ نے ہمیں اشارہ سے بیٹھنے کو فرمایا تو ہم بیٹھ گئے۔ پھر آپﷺنے فرمایا: تم لوگ صفیں ایسے کیوں نہیں بناتے جیسے فرشتے بناتے ہیں؟ آگے پچھلی حدیث جیسا مضمون ذکر کیا۔5 حضرت نعمان بن بشیر ؓ فرماتے ہیں کہ حضورﷺ ہماری صفوں کو ایسا سیدھا کرتے تھے کہ گویا ان کے ذریعے تیر سیدھے کیے جائیں گے۔ کرتے کرتے آپ کو اندازہ ہوا کہ ہم صفیں سیدھا کرنے کی بات اچھی طرح سمجھ گئے ہیں(اور ہم خود ہی صفیں سیدھی بنانے لگ گئے ہیں تو آپ نے صفیں سیدھی کرنا چھوڑ دیں)۔ پھر ایک دن آپ باہر تشریف لائے اور نماز پڑھانے کے لیے کھڑے ہوگئے اور آپ تکبیر کہنے ہی والے تھے کہ آپ نے دیکھا کہ ایک آدمی کا سینہ صف سے باہرنکلا ہوا ہے، تو آپ نے فرمایا: اے اﷲ کے بندو! اپنی صفیں سیدھی کرو، ورنہ اﷲتعالیٰ تمہارے چہرے بدل دیں گے (یا تم میں آپس کی مخالفت پیدا کردیں گے)۔1 ایک روایت میں یہ ہے حضرت نعمانؓ فرماتے ہیں کہ اس کے بعد میں نے دیکھا کہ وہ آدمی اپنا کندھا اپنے ساتھی کے کندھے کے ساتھ اور اپنا گھٹنا اس کے گھٹنے کے ساتھ اور اپنا ٹخنہ اس کے ٹخنے کے ساتھ ملارہا ہے۔2 حضرت نافع کہتے ہیں کہ حضرت عمر ؓ صفیں سیدھی کرنے کا حکم دیتے (اور اس کے لیے کچھ آدمی بھیجتے جو صفیں سیدھی کراتے)۔ جب وہ لوگ واپس آکربتاتے کہ صفیں سیدھی ہوگئی ہیں تو پھر حضرت عمرؓ تکبیر کہتے۔3 حضرت ابو عثمان نہدی کہتے ہیں کہ حضرت عمر ؓ صفیں سیدھی کرنے کا حکم دیتے اور فرماتے: اے فلانے!آگے بڑھ جا۔ اے فلانے! ذراآگے ہوجا۔ اورغالباً یہ بھی فرماتے تھے کہ کچھ لوگ پیچھے ہٹتے رہیں گے یہاںتک کہ اللہ تعالیٰ انھیں پیچھے کردیں گے۔4 حضرت ابوعثمان نہدی کہتے ہیں کہ حضرت عمرؓکو میں نے دیکھا کہ وہ جب نماز پڑھانے کے لیے آگے بڑھتے تو لوگوں کے کندھے اور پاؤں دیکھا کرتے۔5 حضرت ابو نضرہ کہتے ہیں کہ جب نماز کھڑی ہونے لگتی تو حضرت عمر بن خطاب ؓ فرماتے: سیدھے ہوجاؤ۔ اے فلانے! آگے ہوجا۔ اے فلانے!پیچھے ہوجا۔ تم لوگ اپنی صفیں سیدھی کرو۔ اﷲتعالیٰ چاہتے ہیں کہ تم لوگ صفیں بنانے میں فرشتوں والا طریقہ اختیار کرو۔ پھر یہ آیت پڑھتے: {واِنَّا لَنَحْنُ الصَّآفُّوْنَ آیت کا نشان وَاِنَّا لَنَحْنُ الْمُسَبِّحُوْنَ آیت کا نشان}1 اور (اﷲ کے حضور میں حکم سننے کے وقت یا عبادت کے وقت) ہم صف بستہ کھڑے ہوتے ہیں اور ہم (اﷲکی) پاکی بیان کرنے میں بھی لگے رہتے ہیں۔2 حضرت مالک کہتے ہیں کہ میں حضرت عثمان بن عفانؓکے ساتھ تھا اور ان سے بات کررہا تھا کہ وہ میرے لیے کچھ وظیفہ مقرر کردیں کہ اتنے میں نماز کی اقامت ہوگئی۔ میں ان سے بات کرتا رہا اور وہ اپنی جوتیوں سے کنکریاں برابر کرتے رہے، یہاں تک کہ وہ لوگ