حیاۃ الصحابہ اردو جلد 3 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ اللہ کی قسم! میں نے یہ با ت صرف اس وجہ سے کہی تھی کہ میں اسے اچھا نہیں سمجھتی تھی کہ حضورﷺ کی جگہ سب سے پہلے کھڑے ہونے کی وجہ سے حضرت ابوبکرؓ سے لوگ بدفالی لیں۔ اس لیے میں نے یہ بات دو یا تین مرتبہ حضورﷺ کی خدمت میں عرض کی، لیکن حضورﷺ نے آخر میں یہی فرمایا کہ ابوبکر لوگوں کو نماز پڑھائیں، تم تو حضرت یوسف ؑ کی ساتھن (زلیخا) کی طرح ہو۔1 حضرت عبید اللہ بن عبد اللہکہتے ہیں کہ میں نے حضرت عائشہؓ کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کیا کہ آپ ہمیں حضورﷺ کی بیماری کے بارے میں کچھ نہیں بتاتیں؟ انھوں نے فرمایا: کیوں نہیں ضرور۔ جب حضورﷺ کی بیماری بڑھ گئی توآپ نے پوچھا کہ کیا لوگوں نے نمازپڑھ لی ہے؟ ہم نے کہا: نہیں، یا رسول اللہ! وہ آپ کا انتظار کررہے ہیں۔ حضورﷺ نے فرمایا: میرے لیے لگن میں پانی ڈالو۔ ہم نے پانی ڈالا، حضورﷺ نے غسل کیا،پھر آپ کھڑے ہونے لگے تو بے ہوش ہوگئے۔ پھر جب افاقہ ہوا تو آپ نے پوچھا:کیا لوگوں نے نماز پڑھ لی ہے؟ ہم نے کہا:نہیں، یا رسول اللہ! وہ آپ کا انتظار کررہے ہیں۔ آپ نے فرمایا: میرے لیے لگن میں پانی رکھو۔ ہم نے پانی رکھا، حضورﷺ نے غسل کیا، پھر آپ کھڑے ہونے لگے تو بے ہوش ہوگئے۔ پھرجب اِفاقہ ہوا تو آپ نے پوچھا: کیا لوگوں نے نمازپڑھ لی ہے؟ ہم نے کہا: نہیں، یا رسول اللہ! وہ آپ کا انتظار کررہے ہیں۔ آپ نے فرمایا: میرے لیے لگن میں پانی رکھو۔ ہم نے پانی رکھا، حضورﷺ نے غسل کیا، پھر آپ کھڑے ہونے لگے تو بے ہوش ہوگئے۔ پھر جب اِفاقہ ہوا تو آپ نے پوچھا: کیا لوگوں نے نمازپڑھ لی ہے؟ ہم نے کہا: نہیں، یارسول اللہ! وہ آپ کا انتظار کررہے ہیں۔ اور واقعی لوگ مسجد میں بیٹھے ہوئے عشا کی نماز کے لیے حضورﷺ کا انتظار کررہے تھے۔ اس کے بعد حضورﷺ نے حضرت ابوبکر ؓ کے پاس یہ پیغام بھیجا کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں۔ حضرت ابوبکر ؓ بہت نرم دل آدمی تھے اس لیے انھوںنے کہا: اے عمر! آپ لوگوں کو نماز پڑھائیں۔ حضرت عمر ؓ نے کہا: نہیں، اس کے آپ زیادہ حق دار ہیں۔ چناںچہ ان دنوں حضرت ابوبکر ؓ نے نماز پڑھائی۔ اس کے بعد حضورﷺ کے باہر آنے کا ذکر کیا جیسے پہلے گزر چکا ہے۔2 حضرت انس ؓ سے ’’بخاری‘‘ میں منقول ہے کہ نبی کریم ﷺ کے مرض الوفات کے زمانہ میں حضرت ابوبکرؓ لوگوں کو نماز پڑھا رہے تھے۔ جب پیر کا دن ہو ا اور صحابہ صفیں بنا کر نماز میں کھڑے تھے، حضورﷺ حجرہ کا پر دہ ہٹا کر ہمیں دیکھنے لگے۔ آپ کھڑے ہوئے تھے اور آپ کا چہرہ قرآن کے صفحے کی طرح چمک رہا تھا، آپ مسکرارہے تھے (کہ اُمّت اجتماعی کام میں مشغول ہے جس میں انھوں نے لگا یا تھا)۔ حضورﷺ کو دیکھ کر ہمیں اتنی زیادہ خوشی ہوئی کہ بس ہم لوگ نماز توڑنے ہی لگے تھے۔ حضرت ابوبکر ؓ صف میں کھڑے ہونے کے لیے ایڑیوں کے بل پیچھے ہٹنے لگے۔ پھر حضورﷺ نے ہمیں اشارہ سے فرمایا کہ اپنی نماز پوری کرو اور پردہ ڈال کر واپس اندر تشریف لے گئے اور اسی دن حضورﷺ کا وصال ہوگیا۔