الاصول و القواعد للفقہ الاسلامی ۔ فقہ اسلامی کے 413 اصول و قواعد |
قہ اسلا |
مثال (۴): قاعدہ:’’اَلْعَادَۃُ مُحَکِّمَۃٌ‘‘۔ یہ قاعدہ اعتبار عرف اور جن مسائل میں کوئی نص نہیں، وہاں عرف کو حکم بنانے کا قاعدہ تصور کیا جاتا ہے۔اس کی دلیلیں بھی کتاب و سنت اور اجماع میں بے شمار ہیں۔ جیسے فرمان خداوند ی: {خُذِ الْعَفْوَوَأْمُرْبِالْعُرْفِ وَأَعْرِضْ عَنِ الْجَاہِلِیْنَ }۔’’ سرسری برتائو کو قبول کرلیاکیجئے اور نیک کام کی تعلیم کردیاکیجئے اورجاہلوںسے ایک کنارہ ہوجایا کیجئے ‘‘۔ (سورۃ الأعراف:۱۹۹) اور{وَعَاشِرُوْھُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ }۔’’ اوران عورتوں کے ساتھ خوبی کے ساتھ گذران کیا کرو‘‘۔ (سورۃ النساء:۱۹ ) اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد : ’’خُذِيْ مَا یَکْفِیْکِ وَوَلَدَکِ بِالْمَعْرُوْفِ ‘‘۔’’ تو اپنے شوہر کے مال میں سے اس قدر لے لیا کر، جوتیر ے اور تیری اولاد کے گذران کے لئے کافی ہو ‘‘۔ (صحیح البخاري:۸/۸۰۸ ) مثال (۵): قاعدہ :’’ اِعْمَالُ الْکَلاَمِ اَوْلٰی مِنْ اِھْمَالِہٖ‘‘ ۔’’کلام کو کار آمد بنانا اسے بیکار کردینے سے بہتر ہے‘‘۔ اس قاعدہ کی دلیل فر مان خد اوند ی: {مَا یَلْفِظُ مِنْ قَوْلٍ إلَّا لَدَیْہِ رَقِیْبٌ عَتِیْدٌ}۔’’وہ کوئی لفظ منہ سے نہیں نکالنے پاتا، مگر اس کے ـپاس ہی ایک تاک لگانے والا تیار ہے‘‘۔ (سورۃ ق:۱۸) اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد ہے: ’’اِنَّ اللّٰہَ تَعَالٰی عِنْدَ کُلِّ لِسَانٍ قَائِلٍ فَلْیَتَّقِ اللّٰہَ عَبْدٌ وَلْیَنْظُرْ مَا یَقُوْلُ‘‘۔’’بیشک اللہ تعالی ہر کہنے والے کی زبان کے پاس موجود ہوتے ہیں، اس لئے بند ہ کو چاہئے کہ وہ اللہ سے ڈرے ، اور کیا کہہ رہا ہے ذرا اس کو سوچ لے‘‘۔ (اتحاف السادۃ المتقین للزبیدي:۵/۴۵۴، الحلیۃ:۸/۱۶۰،۳۵۲ ، بحوالہ موسوعۃ القواعد الفقہیۃ:۱/۴۱) قسم دوم: وہ قواعد فقہیہ جنہیں فقہائے کرام استدلال قیاس فقہی کے موقع پر لے آئیں، اوریہی قواعد احکام فقہیہ اجتہادیہ کی تعلیلات سمجھے جاتے ہیں،یہ قواعد بھی کسی نہ کسی دلیل شرعی کے تحت داخل ہیں، خواہ دلیل،دلیل متفق علیہ ہو، مثلا ً کتاب اللہ ، سنت رسول اور اجماعِ امت ، یادیگردلائل کے تحت داخل ہوںگے، مثلاًقیاس،استصحاب، مصلحت یا استصلاح، عرف،اور استقراء وغیر ہ ، جن سے احکام شر عیہ کے لیے استدلا ل کیا جاتا ہے۔