الاصول و القواعد للفقہ الاسلامی ۔ فقہ اسلامی کے 413 اصول و قواعد |
قہ اسلا |
بھی شروع ہوجائے گی ،تواستحباب پر عمل کرنے سے واجب ترک ہوجائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ عموماً اقامت کے آغازہی سے لوگ صفوں میں کھڑے ہوکر صفوں کو سیدھی کرنے میں لگ جاتے ہیں۔قاعدہ(۲۷۹): {لا یَجُوْزُ الْجَمْعُ بَیْنَ الْحَقِیْقَۃِ وَالْمَجَازِ مَقْصُوْدَیْنِ بِلَفْظٍ وَاحِدٍ} ترجمہ: ایک ہی لفظ سے جمع بین الحقیقت والمجاز جائز نہیں ہے ،درانحالانکہ دونوں مقصود ہوں۔ (الحسامی:ص۱۴، قواعد الفقہ:ص۱۱۰، رقم القاعدۃ: ۲۶۸، شرح السیر الکبیر:۱/۱۲۸، باب ما یصدق المستأمن فیہ من أہل الحرب وما لا یصدق)مثال: فرمانِ باری تعالیٰ: {أوْ جَائَ أَحَدٌ مِّنْکُمْ مِّنَ الْغَائِطِ أوْ لٰمَسْتُمُ النِسَائَ فَلَمْ تَجِدُوْا مَآئً فَتَیَمَّمُوْا صَعِیْداً طَیِّبًا}۔’’یا تم میں سے کوئی شخص پاخانہ سے آئے ،یا تم نے اپنی بیویوں سے لمس کیا ہو اور اس کے بعد تم پانی نہ پائو تو تیمم کرو پاک مٹی سے‘‘۔ آیت میں لفظِ’’ لمس‘‘ کے معنی حقیقی مس بِالیَد ،اور معنی ٔ مجازی جماع (ہم بستری) ہیں۔ احناف نے معنی ٔمجازی یعنی جماع کو مراد لیا، اس لئے ان کے نزدیک مس بالید ناقض وضو نہیں ہے، اگر مس بالیدسے نقضِ وضو کو تسلیم کیا جاوے تو جمع بین الحقیقت والمجاز لازم آئے گا، جو درست نہیں ہے۔تنبیہ: معنی ٔمجازی جماع ہی کو کیوں مراد لیا گیا، اس کی تفصیل کتبِ اصول میں موجود ہے۔قاعدہ(۲۸۰): {لا یَجُوْزُ لِأحَدٍ أنِْ یَأخُذَ مَالَ أحَدٍ بِلَا سَبَبٍ شَرْعِيٍّ} ترجمہ: کسی کے لئے کسی کا مال بلاسببِ شرعی لینا جائز نہیں ہے۔ (درر الحکام شرح مجلۃ الأحکام :۱/ ۹۸، المادۃ :۹۷، جمہرۃ القواعد الفقہیۃ :۲/۸۷۶ ، رقم القاعدۃ: ۱۸۹۹، القواعد الکلیۃ :ص۳۳۷، قواعد الفقہ:ص۱۱۰، رقم القاعدۃ:۲۶۹، شرح القواعد:ص۴۶۵)مثال: دوسرے کے مال کو لینے کے اسباب شرعیہ: بیع، ہبہ، ارث اور وصیت وغیرہ ہیں،اگر ان میں سے کوئی سبب پایاگیا تو دوسرے کے مال کو لینا جائز ہوگا، ورنہ نہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد