الاصول و القواعد للفقہ الاسلامی ۔ فقہ اسلامی کے 413 اصول و قواعد |
قہ اسلا |
|
مثال: جب اموالِ زکوۃ کا نصاب سال کے دونوں جانب ،یعنی نفسِ وجوب اور وجوبِ ادا کے دن کی ابتدا اور انتہامیں پورا ہو اور درمیانِ سال میں کم ہو، تو یہ درمیانِ سال میںنقصانِ نصاب، وجوبِ زکوۃ کے لئے مانع نہیں ہے۔قاعدہ(۱۹۲):{اَلْعَامُّ قَطْعِيٌّ کَالْخَاصِّ یُوْجِبُ الْحُکْمَ فِیْمَا یَتَنَاوَلُہٗ قَطْعًا} ترجمہ: عام، خاص کی مانند قطعی ہوتا ہے اوروہ جن افراد کو شامل ہوتا ہے، ان میں حکمِ قطعی کو ثابت کرتا ہے۔ (قواعد الفقہ:ص۹۱، القاعدۃ :۱۸۰، شرح السیر الکبیر:۲/۱۷۶، باب ما یجب من السلب بالقتل وما لا یجب، کشف الأسرار شرح المصنف علی المنار:۱/۱۶۱، الفصل الثاني ، دار الکتب العلمیۃ بیروت)مثال: آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان:’’ استنزہوا من البول‘‘ تم پیشاب سے بچو۔ یہ حکم پیشاب سے بچنے میں عام ہے، لہٰذا پیشاب انسان کا ہویا ماکول اللحم وغیر ماکول اللحم کا ،اس سے بچنا قطعی طور پر لازم ہے۔ البتہ یہ بات یادرہے کہ عام مخصوص منہ البعض، خواہ مخصِّص معلوم ہو یا مجہول قطعی نہیں بلکہ ظنی ہوتا ہے، اوراس سے استدلال کرنا ساقط نہیں ہوتا۔قاعدہ(۱۹۳): {عِبَارَۃُ الرَّسُوْلِ کَعِبَارَۃِ الْمُرْسِلِ} ترجمہ: بیانِ قاصد ،بیانِ مرسِل کی مانند ہوتا ہے۔ (شرح السیر الکبیر:۱/۲۵۳، باب ما یکون أمانا وما لا یکون ،۲/۳۹ ، باب أمان الرسول ، قواعد الفقہ:ص۹۱، القاعدۃ:۱۸۲، القواعد الفقہیۃ:ص۷۳۴)مثال: جب امیرِ لشکر اپنے کسی قاصد کو اپنا پیغام دے کر قلعہ کے امیر کے پاس بھیج دے اور قاصد یوں کہے کہ امیر لشکر نے میری زبانی آپ کو امان کا پیغام بھیجا ہے، اس لئے آپ قلعہ کا دروازہ کھول دیجئے، آپ کی پوری قوم آمن ہوگی؛ اب اس کے اس پیغام کو سن کر امیر نے قلعہ کا دروازہ کھول دیا تو اس کو اور اس کی قوم کو امان حاصل ہوگا۔ ’’ لأنَّ عِبَارَۃَ کُلِّ مُبْلَغٍ تَکُوْنُ بِمَنْزِلَۃِ عِبَارَۃِ الْمُبْلِغِ ‘‘ ۔ (شرح السیر: ۱/ ۲۹۱ )تنبیہ: اس طرح کا قاعدہ ما قبل میں قاعدہ نمبر:(۱۵۴) گذر چکا ہے۔