الاصول و القواعد للفقہ الاسلامی ۔ فقہ اسلامی کے 413 اصول و قواعد |
قہ اسلا |
|
قاعدہ(۹۸): {تَقَرُّرُ الْوُجُوْبِ بِاِعْتِبَارِ اٰخِرِ الْوَقْتِ} ترجمہ: تقررِ وجوب میں آخرِ وقت معتبر ہوتا ہے۔ (شرح السیر الکبیر:۱/۱۷۰، بـاب صـلاۃ القــوم الـذین یخـرجون إلی الـعـسکـر ویریدون العدو، قواعد الفقہ:ص۷۲، القاعدۃ:۹۰)مثال: مقیم نے ظہر کا وقت گذر جانے سے پہلے سفر کیا اور ظہر کی نماز نہیں پڑھی تو وہ صرف دوہی رکعت پڑھے گا، اسی طرح اگرمسافر ظہر کا وقت گذر جانے سے پہلے مقیم ہوگیا اورظہر کی نماز نہیں پڑھی تو پوری چار رکعت پڑھے گا، کیوںکہ آخر وقت میں بندہ کی حالت کا اعتبار ہوتا ہے کہ وہ اس اخیر جزء میں کس حال میں ہے، حالتِ سفر میں ہے یا حالتِ اقامت میں، جیسی حالت ہوگی ویسا وجوب مقرر ہوگا۔قاعدہ(۹۹): {تَقْیِیْدُ الْمُطْلَقِ لا یَجُوْزُ إلَّا بِدَلِیْلٍ} ترجمہ: بلا دلیل مطلق کو مقید کرنا جائز نہیں ہے۔ (شرح السیرالکبیر:۵/۴ ، باب الموادعۃ ، قواعد الفقہ:ص۷۲، القاعدۃ:۹۱)مثال: آیتِ وضو {یآیہا الذین آمنوا إذا قمتم إلی الصلاۃ فاغسلوا وجوہکم وأیدیکم إلی المرافق وامسحوا برؤوسکم وأرجلکم إلی الکعبین}مطلق ہے، اس میں فرضیتِ نیت کی قید لگانا درست نہیں ہے، اسی طرح کفارۂ ظہار میں رقبہ (غلام) مطلق ہے، اس کوصفتِ مؤمنہ کی قید سے مقید کرنا درست نہیں ہے، لہذا کفارۂ ظہار میں مومن وکافر ہر دو غلام کا آزاد کرنا درست ہے۔قاعدہ(۱۰۰): {اَلتَّنَاقُضُ غَیْرُ مَقْبُوْلٍ إلَّا فِیْمَا کَانَ مَحَلَّ الْخِفَائِ} ترجمہ: تناقض صرف محلِ خفا میںمقبول ہے۔ (قواعد الفقہ:ص۷۲، القاعدۃ:۹۲، القواعد الفقہیۃ :ص۳۰۹)مثال: کسی آدمی نے کہا کہ یہ میری رضاعی بیٹی ہے، پھر اپنی خطا کا اعتراف کیا کہ اس دعوی میں مجھ سے خطا ہوگئی ،تو دعویٔ خطا میں اس کی تصدیق کی جائے گی اور اس کے لئے اس لڑکی سے نکاح کرنا جائز ہوگا، یہ حکم اس شرط کے ساتھ مشروط ہے کہ وہ اپنے اقرار پر ثابت قدم نہ رہا ہو۔