الاصول و القواعد للفقہ الاسلامی ۔ فقہ اسلامی کے 413 اصول و قواعد |
قہ اسلا |
|
معقول نصوص سے مستنبط ہے، جو حرج و مشقت کے لیے رافع ہے، جیسے فرمان خداوندی ہے:{ لا یُکَلِّفُ اللّٰہُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَہَا}۔’’اللہ کسی کو ذمہ دار نہیں بناتا مگر اس کی بساط کے مطابق‘‘۔ (سورۃ البقرۃ:۲۸۶) اور آپ کا ارشاد:’’ اِذْاَمَرْتُکُمْ بِشَیْیٍٔ فَخُذُ وْامِنْہُ مَااسْتَطَعْتُمْ‘‘۔ ’’جب میں تمہیں کسی بات کا حکم دوں توجہاں تک ممکن ہو اسے کر گزرو‘‘۔(ابن ماجہ:ص۲) …اور اس طرح کی دیگر مثالیں۔کیا قواعد فقہیہ سے اثباتِ احکام درست ہے؟ جب کسی حادثہ یا نئے پیش آمدہ مسئلہ کے حکم سے متعلق کوئی نص یا اجماع، یا قیاس موجود نہ ہو تو کیا اس صورت میں قواعد فقہیہ کو دلائل احکام شرعیہ میں سے ایک دلیل قرار دے کر ان سے احکام کا اثبات صحیح ہوگا؟ یا بالفاظ دیگر،کیا قاعدۂ فقہیہ کو دلیل شرعی قرار دے کر اس سے احکام شرعیہ کا استنباط جائز ہوگا؟ مجلہ احکام عدلیہ صفحہ ۱۰؍میں یہ بات لکھی ہے کہ اسلامی عدالتوں کے جج جب تک کسی نقل صریح سے واقف نہ ہوں، محض کسی قاعدہ کو بنیاد بنا کر فیصلہ نہ کریں۔ عالم جلیل، فقیہ عظیم علامہ مصطفی زرقا ء فرماتے ہیں: ایسا بہت کم ہوتا ہے کہ کسی قاعدہ میں مستثنیات نہ ہوں، ہر قاعدہ میں ضرور کچھ نہ کچھ مستثنیات ہوتی ہیں، اور وہ بالخصوص احکامِ استحسانی کی متقاضی ہوتی ہیں، اس لیے ججوں کے لیے جائز نہیں کہ وہ اپنے فیصلوں کی بنیاد نصِ آخر کو چھوڑ کر محض کسی قاعدہ پر رکھیں، اس لیے کہ گرچہ ان قواعد کی قدر و قیمت و عظمت بہت کچھ ہے، مگر وہ کثیر المستثنیات ہیں، وہ قانون داںبننے کے لیے دستور کی حیثیت تو ضرور رکھتے ہیں، لیکن فیصلہ و قضاء کے لیے نصوص کی نہیں۔ علامہ ابن نجیم اور علامہ مصطفی زرقا ء کی ان تحریروں سے معلوم ہوتا ہے کہ استنباطِ احکام کے لیے قواعد فقہیہ کا اعتباربطور دلائل دو وجہوں سے نہیں ہوسکتا۔وجہِ اول : قواعد فروع مختلفہ کا ثمرہ اور ان کے لیے جامع و رابط ہیں۔…اور یہ بات معقول نہیں ہوگی کہ ثمرۂ فروع و جامع فروع ہی کو احکامِ فروع کے استنباط کے لیے دلیل قرار دیا جائے۔