الاصول و القواعد للفقہ الاسلامی ۔ فقہ اسلامی کے 413 اصول و قواعد |
قہ اسلا |
۵ - جن معاملات میں اجتماعی حاجت کی بنیاد پر نصوص میں تخصیص یا استثناء کا مسئلہ در پیش ہے ان کا فیصلہ علماء اور اصحابِ افتاء انفرادی طور پر نہ کریں ، بلکہ علماء اور فقہاء کی معتد بہ تعداد پورے غور وخوض کے بعد مقاصدِ شریعت ، احکامِ شریعت ، فقہی اصول وقواعد کی روشنی میں باہمی مشورے سے اس کا فیصلہ کرے ، اجتماعی فیصلہ ہی ایسے نازک معاملات میں محتاط او رقابلِ اطمینان ہوتا ہے ۔ (جدید فقہی مباحث:۱۴/۵۶۵تا ۵۶۸)قاعدہ(۱۸۶): {اَلضَّرُوْرَاتُ تَتَقَدَّرُ بِقَدْرِہَا} ترجمہ: ضرورتیں بقدرِ ضرورت ہی ثابت ہوتی ہیں۔ (قواعد الفقہ:ص۸۹، القاعدۃ:۱۷۱، شرح القواعد :ص۱۸۷، جمہرۃ القواعد ، القاعدۃ:۱۰۷۸، ۲۱۱۹ ، القواعد الکلیۃ :ص۲۲۰)مثال: جس شخص کو مردار کھانے کی اجازت دی گئی، وہ صرف اتنی مقدار کھا سکتا ہے، جس سے جان بچ جائے ،نہ کہ اس سے زائد۔قاعدہ(۱۸۷): {اَلضَّرُوْرَاتُ لا تُبِیْحُ إتْلافَ مَالِ الْغَیْرِ بِغَیْرِضَمَانٍ} ترجمہ: ضرورتیں بدونِ ضمان، مالِ غیرکے اتلاف کو مباح نہیں کرتیں۔ (جمہرۃ القواعد الفقہیۃ:۲/۷۶۵، رقم:۱۰۷۹، مجلہ:ص۳۳۲)مثال: اگر کسی شخص کو شدتِ بھوک کی وجہ سے ہلاکت کا خطرہ ہو، تو وہ بقدرِ ضرورت مالِ غیر کو استعمال کرسکتا ہے، لیکن اس پر اس کا ضمان واجب ہوگا۔ (شرح القواعد الفقہیۃ: ص۲۱۳)قاعدہ(۱۸۸):{ضَمَانُ الْفِعْلِ یَتَعَدَّدُ بِتَعَدُّدِ الْفَاعِلِ وَضَمَانُ الْمَحَلِّ لا} ترجمہ: فاعل کے متعدد ہونے سے ضمانِ فعل متعدد ہوتا ہے، ضمانِ محل نہیں ۔ (قواعد الفقہ:ص۸۹، القاعدۃ:۱۷۳)مثال: دو مُحرِم مل کر ایک شکار کو قتل کریں تو جزاء صید (شکار کی قیمت) متعدد ہوگی، یعنی ہر ایک پرپوری پوری قیمت کا تصدق واجب ہوگا(یہ ضمانِ فعل کی مثال ہے)۔ اور اگر دوغیر مُحرِم حرم کے شکار کو قتل کریں، تو جزاء صید متعدد نہیں ہوگی(یہ ضمانِ محل کی مثال ہے)۔